Friday, 27 January 2017

درد درماں سے کم تو کیا ہو گا

درد درماں سے کم تو کیا ہو گا
یہی ہو گا کہ کچھ سوا ہو گا
کس قیامت کا سامنا ہو گا
بجھ گیا دل تو آہ کیا ہو گا
کھل گئے ہیں خوشی سے سب کے دہن
زخم دل کوئی چھو گیا ہو گا
حسن کو چاہے اور دور رہے
کوئی ہم سا بھی پارسا ہو گا
موت آئے گی اور نہ آئے گی
تم نہ آئے تو اور کیا ہو گا
دل پہ انگارے سے برستے ہیں
دھیان راحت کا آ گیا ہو گا
شام ہی سے ہے دل کی حالت غیر
صبح تک تو نہ جانے کیا ہو گا
لاکھ دے رنج لاکھ ظلم کرے
دلربا پھر بھی دلربا ہو گا
وہ مجھے مل گئے زہے تالا
نہ ملا دل سے دل تو کیا ہو گا
یہ بھی کوئی کراہنے کی ہے بات
کچھ جگؔر درد بڑھ گیا ہو گا
مٹ گیا دل جگؔر قرار نہیں
اس محبت کا حشر کیا ہو گا
رخ جو اس نے جگؔر سے پھیر لیا
داغ دل کا دکھا دیا ہو گا

جگر بریلوی

No comments:

Post a Comment