درد درماں سے کم تو کیا ہو گا
یہی ہو گا کہ کچھ سوا ہو گا
کس قیامت کا سامنا ہو گا
بجھ گیا دل تو آہ کیا ہو گا
کھل گئے ہیں خوشی سے سب کے دہن
حسن کو چاہے اور دور رہے
کوئی ہم سا بھی پارسا ہو گا
موت آئے گی اور نہ آئے گی
تم نہ آئے تو اور کیا ہو گا
دل پہ انگارے سے برستے ہیں
دھیان راحت کا آ گیا ہو گا
شام ہی سے ہے دل کی حالت غیر
صبح تک تو نہ جانے کیا ہو گا
لاکھ دے رنج لاکھ ظلم کرے
دلربا پھر بھی دلربا ہو گا
وہ مجھے مل گئے زہے تالا
نہ ملا دل سے دل تو کیا ہو گا
یہ بھی کوئی کراہنے کی ہے بات
کچھ جگؔر درد بڑھ گیا ہو گا
مٹ گیا دل جگؔر قرار نہیں
اس محبت کا حشر کیا ہو گا
رخ جو اس نے جگؔر سے پھیر لیا
داغ دل کا دکھا دیا ہو گا
جگر بریلوی
No comments:
Post a Comment