شجاع آباد
اسٹیشن پر آتی جاتی گاڑی کی آواز
جیسے اگلی پچھلی، ساری، صدیوں کی ہمراز
نامقبول دعاؤں جیسے بڑھتے یکہ بان
اور مسافر آنے والے، جیسے رب کا دھیان
ٹوٹی پھوٹی، اونچی نیچی، ناہموار سڑک
پھاٹک والے موڑ سے آگے، رستے میں اک نہر
جس میں اکثر لہراتی ہے ویرانی کی لہر
رنگ برنگی آنکھوں والے دور دراز کے لوگ
ایک شفاخانہ آنکھوں کا، اور ان دیکھے روگ
ایک احاطے میں بیٹھے ہیں ڈھیروں ڈھیر وکیل
ان کے خوابوں کا حلقہ ہے تھانہ اور تحصیل
استادوں کی پیشانی پر اک جیسی تحریر
اس تحریر سے وابستہ ہے بچوں کی تقدیر
قبرستان کے اک کونے پر گورکنوں کے گھر
موت انہیں زندہ رکھتی ہے، مٹی ان کا زر
ساری آوازوں کا مخزن، چوراہے کا شور
لمحہ لمحہ بھیس بدلتا وقت، ازل کا چور
ٹھیلے والے دکانوں کی حسرت میں پامال
دن بھر ساتھ لیے پھرتے ہیں، سودا اور سوال
چاروں دروازوں کے اندر، اندر کا اسباب
ایک فصیل پرانی، جیسے اک بوڑھے کا خواب
ذوالفقار عادل
No comments:
Post a Comment