Sunday 29 January 2017

ابھی تلک ہے نظر میں وہ شہر سبزہ و گل

ایبٹ آباد

ابھی تلک ہے نظر میں وہ شہرِ سبزہ و گل
جہاں گھٹائیں سرِ رہگزار جھومتی ہیں
جہاں ستارے اترتے ہیں جگنوؤں کی طرح
جہاں پہاڑوں کی قوسیں فلک کو چومتی ہیں
تمام رات جہاں چاندنی کی خوشبوئیں
چنار و سرو کی پرچھائیوں میں گھومتی ہیں
ابھی تلک ہیں نظر کے نگار خانے میں
وہ برگِ گل سے تراشے ہوئے بہشت سے جسم
وہ بولتے ہوئے افسانے الف لیلیٰ کے
وہ رنگ و نور کے پیکر وہ زندگی کے طلسم
اور ایسی کتنی ہی رعنائیاں کہ جن کے لیے
خیال و فکر کی دنیا میں کوئی نام نہ اِسم
ابھی تلک ہیں تصور میں وہ در و دیوار
بسیطِ دامنِ کہسار میں چناروں تلے
جہاں کسی کی جواں زلف بارہا بکھری
جہاں دھڑکتے ہوئے دل محبتوں میں ڈھلے
عجیب تھی وہ جھروکوں کی نیم تاریکی
جہاں نظر سے نظر جب ملی چراغ جلے
میں لوٹ آیا ہوں اس شہرِ سبزہ و گل سے
مگر حیات انہیں ساعتوں پہ مرتی ہے
مجھے یقیں ہے گھنے بادلوں کے سائے میں
وہ زلف اب بھی مِری یاد میں بکھرتی ہے
چراغ بجھ بھی چکے ہیں مگر پسِ چلمن
وہ آنکھ اب بھی مِرا انتظار کرتی ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment