تُو مِرے خواب دیکھتی ہے ابھی
دیکھ پھولوں میں تازگی ہے ابھی
اک تو معصوم سی وہ لڑکی ہے
اور محبت نئی نئی ہے ابھی
کر ہی لیتا ہوں اعتبار تِرا
میں تو کب کا بھلا چکا اس کو
وہ مِرے بارے سوچتی ہے ابھی
کوئی دل میں پکارتا ہے مجھے
ایک آواز گونجتی ہے ابھی
تِرا دریا اتر چکا، لیکن
میری آنکھوں میں تشنگی ہے ابھی
جل رہا ہے دِیا 🪔 ہواؤں میں
شاعری اس پہ ہو رہی ہے ابھی
آتے جاتے میں دیکھ لیتا ہوں
وہ بھی کھڑکی سے جھانکتی ہے ابھی
اس گلی میں کوئی فسوں ہے یا پھر
کوئی دیوار بولتی ہے ابھی
ضبط ٹوٹا نہیں مِرا قیصرؔ
زندگی، موت سے جڑی ہے ابھی
زبیر قیصر
No comments:
Post a Comment