Monday, 30 January 2017

دن ڈھلا ہے تو ڈھل گئے سائے

دن ڈھلا ہے تو ڈھل گئے سائے
جانے والے نہ لوٹ کر آئے
اتنی مصروفیت رہی طاری
خود سے بھی آج تک نہ مل پائے
نیند میں بھی عذاب خوابوں کے
آدمی پھر بھلا کہاں جائے
مجھ کو اوروں سے لینا دینا کیا
کوئی تیری بھی تو خبر لائے
اور کچھ سوچ ہی نہیں پائے
ذہن پر تم فقط رہے چھائے
سردیوں کے یہ زرد رو موسم
رت جگوں کے عذاب ہیں لائے
میری تم سے نہ بن سکے گی دوست
تم سے رکھتا ہوں مختلف رائے
دشمنوں سے تو خیر شکوہ کیا
دوستوں سے فریب ہیں کھائے
اپنے اعداء سے بھی مروت میں
بارہا ہاتھ ہم ملا آئے
ہجر میں تیرے مضمحل جاناں
ٹیسیں اٹھتی ہیں زخم سے ہائے
آج ویران لان ہے جس میں
مل کے پیتے تھے ہم کبھی چائے

تبسم نواز

No comments:

Post a Comment