دن ڈھلا ہے تو ڈھل گئے سائے
جانے والے نہ لوٹ کر آئے
اتنی مصروفیت رہی طاری
خود سے بھی آج تک نہ مل پائے
نیند میں بھی عذاب خوابوں کے
مجھ کو اوروں سے لینا دینا کیا
کوئی تیری بھی تو خبر لائے
اور کچھ سوچ ہی نہیں پائے
ذہن پر تم فقط رہے چھائے
سردیوں کے یہ زرد رو موسم
رت جگوں کے عذاب ہیں لائے
میری تم سے نہ بن سکے گی دوست
تم سے رکھتا ہوں مختلف رائے
دشمنوں سے تو خیر شکوہ کیا
دوستوں سے فریب ہیں کھائے
اپنے اعداء سے بھی مروت میں
بارہا ہاتھ ہم ملا آئے
ہجر میں تیرے مضمحل جاناں
ٹیسیں اٹھتی ہیں زخم سے ہائے
آج ویران لان ہے جس میں
مل کے پیتے تھے ہم کبھی چائے
تبسم نواز
No comments:
Post a Comment