زندگی کو زوال ہے اب تو
روگ اپنی مثال ہے اب تو
ایسے بدلے ہیں ڈھنگ دنیا نے
ٹھوکروں پہ کمال ہے اب تو
سوچ نادم، خیال رنجیدہ
دل لگا ایسا کچھ ہے رنگوں میں
کہ اندھیرا جمال ہے اب تو
آنکھ پھوڑوں یا دوں مٹا دنیا
سامنے یہ سوال ہے اب تو
اب دعائیں نہ دل سے سجدے ہیں
نہ اذانِ بلال ہے اب تو
خواب سے بھی ہوا ہے وہ رخصت
جانے کیسی سنبھال ہے اب تو
کیسے کہہ دوں میں باوفا خود کو
جب نہ حسرت وصال ہے اب تو
ڈوبنے کی گھڑی سے کچھ پہلے
آخری یہ اچھال ہے اب تو
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment