Tuesday 31 January 2017

زندگی کو زوال ہے اب تو

زندگی کو زوال ہے اب تو
روگ اپنی مثال ہے اب تو
ایسے بدلے ہیں ڈھنگ دنیا نے
ٹھوکروں پہ کمال ہے اب تو
سوچ نادم، خیال رنجیدہ
جینا گویا ملال ہے اب تو
دل لگا ایسا کچھ ہے رنگوں میں
کہ اندھیرا جمال ہے اب تو
آنکھ پھوڑوں یا دوں مٹا دنیا
سامنے یہ سوال ہے اب تو
اب دعائیں نہ دل سے سجدے ہیں
نہ اذانِ بلال ہے اب تو
خواب سے بھی ہوا ہے وہ رخصت
جانے کیسی سنبھال ہے اب تو
کیسے کہہ دوں میں باوفا خود کو
جب نہ حسرت وصال ہے اب تو
ڈوبنے کی گھڑی سے کچھ پہلے
آخری یہ اچھال ہے اب تو

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment