Wednesday, 1 February 2017

آج تو خود سے لڑ پڑا ہوں میں

آج تو خود سے لڑ پڑا ہوں میں
خواب کیوں دیکھتا رہا ہوں میں
تم جو بے حد قریب ہو میرے
کیا تمہارا بھی مسئلہ ہوں میں
ایک بس ایک کی تمنا میں
کیسے برباد ہو گیا ہوں میں
اے غمِ یادِ یار! کیا کہنے
تجھ بدولت ہی تو جیا ہوں میں
وقت کی جبریہ حکومت میں
ایک لمحے کا واقعہ ہوں میں
سوگواری ہوں اک محبت کی
لفظ و اظہار سے ورا ہوں میں
وہ جنہیں ہجرتیں نہ راس آئیں
ان چراغوں کا مرثیہ ہوں میں
جو فراموش ہو چکی کب کی
اسی تہذیب کا گلہ ہوں میں
جرم یہ تو نہیں کہ جانتا ہوں
جرم یہ ہے کہ بولتا ہوں میں
شاعرى مشغلہ نہیں میرا
اس سے دنیا کو دیکھتا ہوں میں
گر مجھے عشق ہو گیا ہے تو کیا
عشق کو بھی تو ہو چکا ہوں میں
کیا مصیبت ہے میرا ’ہونا‘ بھی
آج دل کھول کر ہنسا ہوں میں
فخرِ انسانیت گنوا بیٹھوں
ورنہ کہ دوں کہ ہاں خدا ہوں میں
پڑھ رہا ہوں میں سورۂ رحمان
اپنی تصدیق کر رہا ہوں میں
میں بہت کچھ تھا پر علی زریون
اب تو انسان ہی بچا ہوں میں

علی زریون

No comments:

Post a Comment