اک جھلک دیکھ کے حیران بھی ہو سکتا ہے
آئینہ ہے، سو پریشان بھی ہو سکتا ہے
عین ممکن ہے کہ ہو تیری طرف دھیان مِرا
اور کسی اور طرف دھیان بھی ہو سکتا ہے
تُو اگر دیکھنے آ جائے مجھے آخری بار
تُو مجھے جیسا سمجھتا ہے، میں ویسا تو نہیں
مجھ سے مل کر تُو پشیمان بھی ہو سکتا ہے
لازمی تو نہیں، مہمان ہو آنے والا
آنے والا کوئی طوفان بھی ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ میدانِ جہالت میں لڑیں
وہ کوئی عِلم کا میدان بھی ہو سکتا ہے
کسی اسلام مخالف سے تُو نفرت مت کر
وہ کسی لمحے مسلمان بھی ہو سکتا ہے
آدمی سے کبھی مایوس نہیں ہوتا میں
آدمی ہے، تو وہ انسان بھی ہو سکتا ہے
اپنے ہم عصر جسے رد کیے جاتے ہیں
کل کو وہ عہد کی پہچان بھی ہو سکتا ہے
یہ جو آوارہ سا اک شخص پِھرے ہے سَرِ دشت
ساحؔرِ چاک گریبان بھی ہو سکتا ہے
پرویز ساحر
No comments:
Post a Comment