کوئی شکوہ مجھے تقدیر سے بیجا نہیں تھا
وہ میرا ہو بھی سکتا تھا مگر میرا نہیں تھا
مِرا ثابت قدم رہنا ضروری ہو گیا تھا
مِرے چاروں طرف کوئی مِرے جیسا نہیں تھا
اسی اک سمت جاتے تھے سبھی رستے ہمارے
مجھے ہر بار جو تم دیکھتے تھے مسکرا کر
تمہارا دیکھنا اب دیکھنے جیسا نہیں تھا
مِرا کاسہ بھی جانے کیوں مجھی سا بے خبر تھا
کہ میں نے خود سے بھی تو کچھ کبھی مانگا نہیں تھا
کسی کی ناؤ گہرے پانیوں سے کھیلتی تھی
کسی کا ساحلوں سے بھی کوئی رشتہ نہیں تھا
غریبوں میں یہ کیسی بھوک بانٹی جا رہی تھی
امیرِ شہر کے حصہ میں کچھ آیا نہیں تھا
ابھی تو آرزوئے وصل گھونگھٹ میں چھپی تھی
ابھی کاجل شبِ ہجراں کا بھی پھیلا نہیں تھا
میں کس سے گفتگو کرتی تعلق کو نبھاتی
جسے ملنا تھا مجھ سے وہ کبھی ملتا نہیں تھا
مجھے شاید کسی سے ہو گیا تھا عشق
جو سینے میں دھڑکتا تھا، وہ دل میرا نہیں تھا
سیما نقوی
No comments:
Post a Comment