Friday, 10 February 2017

حدوں کو پار کیا تو حدود میں آیا

مال حسن تھا چشمِ حسود میں آیا
حدوں کو پار کیا تو حدود میں آیا
ہر اک حصار سے باہر تھا زیست کا لمحہ
قضا نے قید کیا تو قیود میں آیا
جمالِ ماہِ منور کی آرزو لے کر
ستارہ شام کا شہرِ شہود میں آیا
زمانے بھر کی نگاہیں تھیں منتظر اس کی
یونہی نہیں وہ عدم سے وجود میں آیا
مِری نماز اسی نقش سے ہوئی قائم
جبیں کا داغ جو ذوقِ سجود میں آیا
کسی نظر کی کرامت ہوئی کرامتؔ پر
میں اپنے نام کے صدقے نمود میں آیا

کرامت بخاری

No comments:

Post a Comment