ہم نے کیا کیا نہ کیا اہلِ ہنر ہونے تک
خون ہوتا ہے جگر آئینہ گر ہونے تک
ایک پروانہ کہ تھا محوِ طوافِ شبِ ہجر
پہلوئے شمع میں تھا وہ بھی سحر ہونے تک
یاد رکھیو کہ محبت میں نہیں صرف جنوں
پھر تو یہ ہستئ موہوم نہیں ہے گویا
زندگی کا یہ تماشا ہے اگر ہونے تک
کھلکھلاتا ہوں سرِ شاخِ وجود آج تو میں
ساری مستی ہے یہ گلچیں کی نظر ہونے تک
نیلگوں چرخ ہے پھر اپنا مقدر اخترؔ
قید بے قید کا آزار ہے پر ہونے تک
اختر عثمان
No comments:
Post a Comment