Wednesday, 22 February 2017

ہم نے کیا کیا نہ کیا اہل ہنر ہونے تک

ہم نے کیا کیا نہ کیا اہلِ ہنر ہونے تک 
خون ہوتا ہے جگر آئینہ گر ہونے تک
ایک پروانہ کہ تھا محوِ طوافِ شبِ ہجر
پہلوئے شمع میں تھا وہ بھی سحر ہونے تک
یاد رکھیو کہ محبت میں نہیں صرف جنوں
یونہی دیوانے پھرو دشت میں گھر ہونے تک
پھر تو یہ ہستئ موہوم نہیں ہے گویا
زندگی کا یہ تماشا ہے اگر ہونے تک
کھلکھلاتا ہوں سرِ شاخِ وجود آج تو میں
ساری مستی ہے یہ گلچیں کی نظر ہونے تک
نیلگوں چرخ ہے پھر اپنا مقدر اخترؔ 
قید بے قید کا آزار ہے پر ہونے تک

اختر عثمان

No comments:

Post a Comment