گری گر کر اٹھی پلٹی تو جو کچھ تھا اٹھا لائی
نظر کیا کیمیا تھی رنگ چہروں سے اڑا لائی
خدا کے واسطے سفاکیاں یہ کس سے سیکھی ہیں
نظر سے پیار مانگا تھا، وہ اک خنجر اٹھا لائی
نہ حسرت ہی نکلتی ہے نہ دل کو آگ لگتی ہے
وہ سب بدمستیاں تھیں زر کی اب زر ہے نہ پیتے ہیں
ہماری مفلسی خود راہ پر ہم کو لگا لائی
مٹانے کو ہمارے یہ زمین و آسماں دونوں
ہمیشہ مل کے چلتے ہیں بہ ایں پستی و بالائی
جو کچھ دیکھا نہ دیکھا جو سنی وہ ان سنی شاعرؔ
نہ آئے ہم یہاں یہ زندگی مفت خدا لائی
آغا شاعر قزلباش
No comments:
Post a Comment