Thursday, 2 February 2017

گری گر کر اٹھی پلٹی تو جو کچھ تھا اٹھا لائی

گری گر کر اٹھی پلٹی تو جو کچھ تھا اٹھا لائی
نظر کیا کیمیا تھی رنگ چہروں سے اڑا لائی
خدا کے واسطے سفاکیاں یہ کس سے سیکھی ہیں
نظر سے پیار مانگا تھا، وہ اک خنجر اٹھا لائی
نہ حسرت ہی نکلتی ہے نہ دل کو آگ لگتی ہے
مِری ہستی مِرے دامن میں کیا کانٹا لگا لائی
وہ سب بدمستیاں تھیں زر کی اب زر ہے نہ پیتے ہیں
ہماری مفلسی خود راہ پر ہم کو لگا لائی
مٹانے کو ہمارے یہ زمین و آسماں دونوں
ہمیشہ مل کے چلتے ہیں بہ ایں پستی و بالائی
جو کچھ دیکھا نہ دیکھا جو سنی وہ ان سنی شاعرؔ
نہ آئے ہم یہاں یہ زندگی مفت خدا لائی

آغا شاعر قزلباش

No comments:

Post a Comment