Sunday 19 February 2017

کہ مذہب ہار جاتا ہے سیاست جیت جاتی ہے

مذہبی رہنما

کہ مذہب ہار جاتا ہے سیاست جیت جاتی ہے
مجھے اپنی ہمہ دانی کے اوپر عزمِ راسخ ہے 
سو میں بے تاب ہو کر پرچمِ مذہب اٹھاتا ہوں
اور اس کی چھتر چھایا میں 
مفاداتِ دُنی کے قافلے کو لے کے چلتا ہوں

میں اپنے مرکبِ پر رنگ کی چھت پر کھڑے ہو کر
بڑی خود اعتمادی سے 
سماعت پاش لہجے میں
بہت ہی پر کشش نعرے لگاتا ہوں
اور اپنے ملک کے مایوس لوگوں کو بلاتا ہوں
انہیں میں درس دیتا ہوں عبادت کا
انہیں میں واسطہ دیتا ہوں مذہب کا
وہاں سے موڑ کر میں ان کو لاتا ہوں سیاست پر
مقاصد کو عقائد سے
عقائد کو سیاست سے
میں یوں الجھا کے چلتا ہوں 
حقیقت ڈبکیاں کھاتی ہے باطل کے سمندر میں
بظاہر مذہبی فرقہ بناتا ہوں 
مگر دراصل میں بنیاد رکھتا ہوں
سیاسی جرگہ بندی کی
مری اس شعبدہ بازی کے حاصل میں 
اک ایسا وقت آتا ہے
کہ مذہب ہار جاتا ہے
سیاست جیت جاتی ہے
مجھے اپنی ہمہ دانی کے اوپر عزمِ راسخ ہے
گٹ اپ ایسا بناتا ہوں کہ خلقت رشک کرتی ہے
میں دینی محفلوں میں 
وعظ دیتا ہوں تعصب کا
بصد ایقان و خودبینی
سبق دیتا ہوں نفرت کا
میں جب تقریر کرتا ہوں
تو ممبر کانپ اٹھتا ہے
دہل جاتی ہیں دیواریں
درو محراب تپتے ہیں
اداکاری کے جوہر میں دکھاتا ہوں سرِ محفل
سکوت و صوت کے آہنگ سے
میں ایسا جال بُنتا ہوں کہ محفل جھوم اٹھتی ہے
میں ان کے ہاتھ میں تلوار دے کر ان سے کہتا ہوں
علمبردارِ حق تم ہو
سپاہی ہو صداقت کے
کرو یورش، الٹ ڈالو نظامِ امنِ ملت کو
مرے زیرِ اثر لوگوں کا اک مخصوص حلقہ ہے
جو سادہ لوح ہوتے ہیں
بہت معصوم ہوتے ہیں
جو مذہب کے علمبردار ہوتے ہیں
اصولِ دین سے سرشار ہوتے ہیں
وہ جاں دینے کو مذہب کے لیے تیار ہوتے ہیں
میں ان کے ذہنِ سادہ کو جکڑ دیتا ہوں سانچے میں
انہیں محصور کر لیتا ہوں اپنی مشتِ آہن میں
میں ان کو منجمد کر کے 
انہیں مفلوج کر کے اپنے
مقصد کے لیے استعمال کرتا ہوں 
حصولِ جاہ کی خاطر
دکاں ایسی سجاتا ہوں
سیاست جس پہ غالب ہو

فضا اعظمی

No comments:

Post a Comment