تُو نہیں جانتی
نیند کی گولیاں کیوں بنائی گئیں
لوگ کیوں رات کو اٹھ کے روتے ہیں سوتے نہیں
تُو نے اب تک کوئی شب اگر جاگتے بھی گزاری
تو وہ باربی نائیٹ تھی
کہ تِری صدا کے تعاقب میں
میں کیسے دریاؤں، صحراؤں اور جنگلوں سے گزرتا ہوا
ایک ایسی جگہ جا گرا تھا
جہاں پیڑکا سوکھنا عام سی بات تھی
جہاں ان چراغوں کو جلنے کی اجرت نہیں مل رہی تھی
جہاں ایک معصوم بچہ پرندے پکڑنے کے سارے ہنر جانتا تھا
مجھ کو معلوم تھا
تیرا ایسے جہاں ایسی دنیا سے کوئی تعلق نہیں
تُو نہیں جانتی
کتنی آنکھیں تجھے دیکھتے دیکھتے بجھ گئیں
کتنے کُرتے تِرے ہاتھ سے استری ہو کے جلنے کی خواہش میں کھونٹی سے لٹکے رہے
میں تجھے دھونڈتے ڈھونڈھتے تھک گیا ہوں
اب مجھے تیری موجودگی چاہیے
تہذیب حافی
No comments:
Post a Comment