صرف یہ درد دل نشیں ہوتا
جب کہوں درد اب نہیں ہوتا
خود کبھی راہ میں بھٹکتا ہوں
یا کبھی وہ نہ ہم نشیں ہوتا
آنکھ کہتی سراب ہے سارا
جب بھی دل یہ یقین ہے کرتا
کیوں ہے دھوکا وہیں کہیں ہوتا
اس کے وعدوں پہ میں جرح کرتا
خود میں گر صادق و امیں ہوتا
سن کے احوال اس کی محفل کا
دل یہ تڑپے کہ میں وہیں ہوتا
دور جا کے کِیا تو کیا ہے کِیا
یاد کرتا وہ جب یہیں ہوتا
جانے وہ کس دیار ہے ابرکؔ
کاش تو اس کی سرزمیں ہوتا
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment