Wednesday 1 February 2017

صرف یہ درد دل نشیں ہوتا

صرف یہ درد دل نشیں ہوتا
جب کہوں درد اب نہیں ہوتا
خود کبھی راہ میں بھٹکتا ہوں
یا کبھی وہ نہ ہم نشیں ہوتا
آنکھ کہتی سراب ہے سارا
دل کو ہی پر نہیں یقیں ہوتا
جب بھی دل یہ یقین ہے کرتا 
کیوں ہے دھوکا وہیں کہیں ہوتا
اس کے وعدوں پہ میں جرح کرتا 
خود میں گر صادق و امیں ہوتا
سن کے احوال اس کی محفل کا
دل یہ تڑپے کہ میں وہیں ہوتا
دور جا کے کِیا تو کیا ہے کِیا
یاد کرتا وہ جب یہیں ہوتا
جانے وہ کس دیار ہے ابرکؔ
کاش تو اس کی سرزمیں ہوتا

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment