چشمِ خوش آب کی تمثیل نہیں ہو سکتی
ایسی شفاف کوئی جھیل نہیں ہو سکتی
میری فطرت ہی میں شامِل ہے محبت کرنا
اور فطرت کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی
اس کے دل میں مجھے اک جوت جگانا پڑے گی
سکۂ داغ و زرِ غم سے بھرا ہے مِرا دِل
دیکھ! خالی مِری زنبیل نہیں ہو سکتی
اس لیے شدتِ صدمات میں رو دیتا ہوں
مجھ سے جذبات کی تشکیل نہیں ہو سکتی
دکھ تو یہ ہے وہ مِرے دکھ کو سمجھتا ہی نہیں
اس تک احساس کی ترسیل نہیں ہو سکتی
چھوڑ آیا ہُوں تِرا دفترِ دربار نما
اب تِرے حکم کی تعمیل نہیں ہو سکتی
اس کثافت کی لطافت سے بھلا کیا نسبت
تیرگی، نُور میں تحلیل نہیں ہو سکتی
لازمی تو نہیں ساحرؔ! وہ مجھے مل جائے
یعنی، ہر خواب کی تکمیل نہیں ہو سکتی
پرویز ساحر
No comments:
Post a Comment