Tuesday, 21 February 2017

طالوت نکل آئے ہیں جالوت نکل آئے

طالُوت نکل آئے ہیں جالُوت نکل آئے
اس ’کہنہ قبیلے‘ سے کئی پُوت نکل آئے
جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھے تُو
اندر سے مِرے عالمَ لاہوت نکل آئے
خوابوں کو لہو کرنے سے تب تک نہ ہٹوں گا
جب تک نہ مِری آنکھ سے یاقُوت نکل آئے
کیا ہو جو نکل آئے فقط ایک کی زہرہ
ہارُوت کے شانے پہ جو مارُوت نکل آئے
جب مر گئی وہ چاند پہ بیٹھی ہوئی بڑھیا
ہم چرخۂ اوقات سے بے سُوت نکل آئے
یادوں کو تِری چھیڑ کے ڈرتا ہوں مبادا
اس کہنہ دفینے سے کوئی بھُوت نکل آئے
پتھر میں اسے رزق دیا، شوق سے پالا
پتھر کے کلیجے سے جو طاغوت نکل آئے
خود اپنی ہی قامت کی قیامت سے بھی ڈرنا
کب جسم کے تابُوت سے کلبُوت نکل آئے
وہ اس کی جدائی، وہ مقدر، وہ شبِ غم
اور اس میں کچھ اپنے بھی جو کرتُوت نکل آئے

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment