نہ کبھی تھی نہ پھر کبھی ٹھہری
بات جو تھی مگر وہی ٹھہری
مجھ کو سمجھا رہے تھے فرزانے
اور میں ایک سر پھِری ٹھہری
جیسے جھرنا ہو گیت گاتا ہوا
وہ نظر برق تھی کہ تھی بارش
چَھم سے آئی، گِری پڑی، ٹھہری
کہہ دیا نا کہ ہے تِرا سب کچھ
زندگی آج سے تِری ٹھہری
اور دل میں نہ رہ سکا کوئی
صرف بے نام بے کلی ٹھہری
وہ تو رستے میں آ گیا طوفاں
میں یونہی بے سبب نہ تھی ٹھہری
وہ جو اک پہلی سانس تھی سیماؔ
بس وہی سانس آخری ٹھہری
سیما نقوی
No comments:
Post a Comment