Monday 20 February 2017

نہ کبھی تھی نہ پھر کبھی ٹھہری

نہ کبھی تھی نہ پھر کبھی ٹھہری
بات جو تھی مگر وہی ٹھہری
مجھ کو سمجھا رہے تھے فرزانے
اور میں ایک سر پھِری ٹھہری
جیسے جھرنا ہو گیت گاتا ہوا
میرا بچپن وہی ہنسی ٹھہری
وہ نظر برق تھی کہ تھی بارش
چَھم سے آئی، گِری پڑی، ٹھہری
کہہ دیا نا کہ ہے تِرا سب کچھ
زندگی آج سے تِری ٹھہری
اور دل میں نہ رہ سکا کوئی
صرف بے نام بے کلی ٹھہری
وہ تو رستے میں آ گیا طوفاں
میں یونہی بے سبب نہ تھی ٹھہری
وہ جو اک پہلی سانس تھی سیماؔ 
بس وہی سانس آخری ٹھہری

سیما نقوی 

No comments:

Post a Comment