Tuesday 21 February 2017

میان دوستاں رہتا بہت ہوں

میانِ دوستاں رہتا بہت ہوں 
کہوں کس سے کہ میں تنہا بہت ہوں 
نجانے کیا خطا سرزد ہوئی تھی
میں اپنے آپ پر برسا بہت ہوں
پرندے بھی مجھے پہچانتے ہیں
میں ان پیڑوں تلے بیٹھا بہت ہوں
بہت دلکش ہیں سنگ و سر کے رشتے
تِری گلیوں سے میں گزرا بہت ہوں
بکھرنا چاہتا ہوں ساحلوں پر 
میں دریا ہوں مگر گہرا بہت ہوں 
نہیں آساں مجھے مصلوب کرنا 
تِری سولی سے میں اونچا بہت ہوں 

توقیر عباس

No comments:

Post a Comment