Tuesday 21 February 2017

قائل آہ و فغاں کے تھے ہی نہیں

قائل آہ و فغاں کے تھے ہی نہیں
ساۓ اس سائباں کے تھے ہی نہیں
شور گریہ پزیر ہوتا تھا 
قابل اپنے بیاں کے تھے ہی نہیں
ہمیں لوگوں نے اجنبی سمجھا 
ہم تو جیسے یہاں کے تھے ہی نہیں
اس لیے تھا گریز وحشت سے 
ہم کسی بدگماں کے تھے ہی نہیں
دستِ قدرت سے ہم ہیں نکلے ہوئے
تیر تیری کماں کے تھے ہی نہیں
ہم تھے منسوب ایک سورج سے 
دھوپ تھے سائباں کے تھے ہی نہیں
تم نے روشن تو کر لیا ہے، مگر 
ہم دِیے اس مکاں کے تھے ہی نہیں
اپنے آفاق اور تھے توقیرؔ 
ہم کسی آسماں کے تھے ہی نہیں

توقیر عباس

No comments:

Post a Comment