Monday, 27 February 2017

ان گھٹن آلود خوابوں کو خزانہ مت سمجھ

ان گھٹن آلود خوابوں کو خزانہ مت سمجھ
جو دکھائی دے رہا ہے دوست ویسا مت سمجھ
آگ میں پھونکے تخیل کے لیے کیا حرفِ داد
راکھ ہوتی شاعری کو میرا لہجہ مت سمجھ
ذائقہ اس شہر کے موسم کا ہے کھارا بہت
پھل درختوں پر لگا ہے جو وہ میٹھا مت سمجھ
کھیلنے والے سکوں سے کھیلنا ہے تو بتا
تُو کھلونا ہی سہی مجھ کو کھلونا مت سمجھ
اس کی آنکھوں کی طرح خود بھی منافق ہے وہ شخص
اس سے چاہت مت جتا اس کو فرشتہ مت سمجھ
ہم فقیروں کے غموں پر کر نظر انصاف کی
آخری آنسو شب ہجران پہلا مت سمجھ
بھول نہ جاؤں کہ میرا حافظہ کمزور ہے
یار سن میرے کسی وعدے کو وعدہ مت سمجھ
اک اڑان اگلی اڑانوں سے ذرا ہٹ کے تو بھر
اے پرندے! آسماں اتنا بھی اونچا مت سمجھ
بستیوں کی سمت مت جا بستیوں میں خوف ہے
ہیں مکاں جتنے حسیں اتنے کشادہ مت سمجھ
دو قدم چل کر تری جانب پڑھیں گے الامان
ان دراڑوں سے بھرے پیروں کو زندہ مت سمجھ
پیاس کا زیور پہن کر دشت لگتا ہے جواں 
ریت پر آئی چمک اے شخص دریا مت سمجھ
ہجر میں ہر عام شے بھی خاص لگتی ہے فقیہہ
خون سے لکھے ہوئے خط کو صحیفہ مت سمجھ

فقیہہ حیدر

No comments:

Post a Comment