ان گھٹن آلود خوابوں کو خزانہ مت سمجھ
جو دکھائی دے رہا ہے دوست ویسا مت سمجھ
آگ میں پھونکے تخیل کے لیے کیا حرفِ داد
راکھ ہوتی شاعری کو میرا لہجہ مت سمجھ
ذائقہ اس شہر کے موسم کا ہے کھارا بہت
کھیلنے والے سکوں سے کھیلنا ہے تو بتا
تُو کھلونا ہی سہی مجھ کو کھلونا مت سمجھ
اس کی آنکھوں کی طرح خود بھی منافق ہے وہ شخص
اس سے چاہت مت جتا اس کو فرشتہ مت سمجھ
ہم فقیروں کے غموں پر کر نظر انصاف کی
آخری آنسو شب ہجران پہلا مت سمجھ
بھول نہ جاؤں کہ میرا حافظہ کمزور ہے
یار سن میرے کسی وعدے کو وعدہ مت سمجھ
اک اڑان اگلی اڑانوں سے ذرا ہٹ کے تو بھر
اے پرندے! آسماں اتنا بھی اونچا مت سمجھ
بستیوں کی سمت مت جا بستیوں میں خوف ہے
ہیں مکاں جتنے حسیں اتنے کشادہ مت سمجھ
دو قدم چل کر تری جانب پڑھیں گے الامان
ان دراڑوں سے بھرے پیروں کو زندہ مت سمجھ
پیاس کا زیور پہن کر دشت لگتا ہے جواں
ریت پر آئی چمک اے شخص دریا مت سمجھ
ہجر میں ہر عام شے بھی خاص لگتی ہے فقیہہ
خون سے لکھے ہوئے خط کو صحیفہ مت سمجھ
فقیہہ حیدر
No comments:
Post a Comment