Tuesday 7 February 2017

بند ہو جائے مری آنکھ اگر

بند ہو جائے مِری آنکھ اگر
اس دریچے کو کھلا رہنے دو
یہ دریچہ ہے افق آئینہ
اس میں رقصاں ہیں جہاں کے منظر
اس دریچے کو کھلا رہنے دو
اس دریچے سے ابھرتی دیکھی
چاند کی شام
ستاروں کی سحر
اس دریچے کو کھلا رہنے دو
اس دریچے سے کیے ہیں میں نے
کئی بے چشم نظارے
کئی بے راہ سفر
اس دریچے کو کھلا رہنے دو
یہ دریچہ ہے مِرے شوق کا چاکِ داماں
مِری بدنام نگاہیں، مِری رسوا آنکھیں
یہ دریچہ ہے مِری تشنہ نظر
بند ہو جائے مِری آنکھ اگر
اس دریچے کو کھلا رہنے دو

صوفی تبسم

No comments:

Post a Comment