Sunday 19 February 2017

تو نے پھول بھیجا ہے

ویلینٹائنز ڈے

تُو نے پھول بھیجا ہے
جس میں تیرے ہاتھوں کی
نرم خوشبوئیں بھی ہیں
اور تیری قربت کی، جاگتی کہانی بھی
زندگی کے دریا کی ناچتی روانی بھی
بات کاٹنے والی بے دھڑک جوانی بھی

پھول تیری چاہت کی بولتی علامت ہے
اونگھتے زمانوں کی جاگتی بغاوت ہے
پھول تیرا قاصد ہے، اور تِری نشانی بھی
گفتگو کی دنیا میں حرف بھی، معانی بھی
سوچتا ہوں اس کو میں، کیسے جاوداں کر لوں
اس سے اٹھتی خوشبو کو، ہجر کی اماں کر لوں
پتیوں کو چپکے سے، ذہن کی کلائی پر
کس کے باندھ لوں جیسے
گجرے باندھ لیتی ہے
شام کو نئی دلہن
اس کی مُورگوں کو میں 
تیری آنکھ کے ڈورے جان کر یہ بینائی
سونپ دوں، کہ سپنوں میں 
دشمنوں میں اپنوں میں
صرف تُو دکھائی دے
سوچتا ہوں کہ یہ لمحہ قید کر لیا جائے
اس سے پہلے بستی میں بھاگتے پھریں سائے
اس سے پہلے خوابوں کا راستہ بدل جائے
زندگی کا سیدھا پن، زاویوں میں ڈھل جائے
تو نے پھول بھیجا ہے

احمد حماد

No comments:

Post a Comment