Wednesday, 15 February 2017

یونہی افزائش وحشت کے جو ساماں ہوں گے

یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے
دل کے سب زخم بھی ہمشکلِ گریباں ہوں گے
وجہِ مایوسئ عاشق ہے تغافل ان کا
نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے
دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے
منتشر ہو کے بھی دل جمع رکھیں گے، یعنی
ہم بھی اب پیروئے گیسوئے پریشاں ہوں گے
گردشِ بخت نے مایوس کیا ہے، لیکن
اب بھی ہر گوشۂ دل میں کئی ارماں ہوں گے
ہے ابھی خوں سے فقط گرمئ ہنگامۂ اشک
پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے
باندھ کر عہدِ وفا اتنا تنفّر، ہے، ہے
تجھ سے بے مہر کم اے عمرِ گریزاں! ہوں گے
اس قدر بھی دلِ سوزاں کو نہ جان افسردہ
ابھی کچھ داغ تو اے شمع! فروزاں ہوں گے
عہد میں تیرے کہاں گرمئ ہنگامۂ عیش
گل میری قسمت واژونہ پہ خنداں ہوں گے
خوگرِ عیش نہیں ہیں ترے برگشتہ نصیب
ان کو دشوار ہیں وہ کام جو آساں ہوں گے
موت پھر زیست نہ ہو جائے یہ ڈر ہے غالبؔ
وہ مری نعش پہ انگشت بہ دنداں ہوں گے

مرزا غالب

No comments:

Post a Comment