Tuesday 14 February 2017

زخموں سے کہاں لفظوں سے ماری گئی ہوں میں

زخموں سے کہاں، لفظوں سے ماری گئی ہوں میں
جیون کے چاک سے یوں اتاری گئی ہوں میں
مجھ کو مرے وجود میں بس تُو ہی تُو مِلا
ایسے تری مہک سے سنواری گئی ہوں میں
افسوس مجھ کو اس نے اتارا ہے گور میں
جس کے لیے فلک سے اتاری گئی ہوں میں
مجھ کو کِیا ہے خاک تو پھر خاک بھی اڑا 
اے عشق! تیری راہ میں واری گئی ہوں میں
لو آ گئی ہوں ہجر میں مرنے کے واسطے 
اتنے خلوص سے جو پکاری گئی ہوں میں
میری صداقتوں پہ تمہیں کیوں نہیں یقین
سو بار آگ سے بھی گزاری گئی ہوں میں
تم جانتے نہیں ہو اذیت کے کیف کو 
ہجرت کے کرب سے تو گزاری گئی ہوں میں
میں مِٹ چکی ہوں اور نمایاں ہوا ہے تُو
مرشد خمار میں یوں خماری گئی ہوں میں
اس وجد میں موجود کہاں ہے مرا وجود
جانے کہاں پہ ساری کی ساری گئی ہوں میں
مقتل میں جان دینا تھی پیاروں کے واسطے 
میں ہی تھی ان کو جان سے پیاری گئی ہوں میں
یہ قرضِ عشق میں نے چُکانا تھا اس لیے 
شاہیؔن اپنی جان سے واری گئی ہوں میں

نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment