اقتباس از عذابِ ہمسائیگی
کرو تم یاد اس دن کو کہ جب تم نے
ہماری اک رقم کو روکنے کا فیصلہ کر کے
ہمیں مشکل میں ڈالا تھا
تمہارے اس غلط اور غاصبانہ حکم کی تنسیخ کی خاطر
تمہارے قائدِ اول نے خود کش برتھ رکھا تھا
کرو تم یاد اس دن کو
کہ جب ہم غم زدہ تھے قائدِ اعظم کی رحلت پر
تو اس موقع کا پورا فائدہ تم نے اٹھایا تھا
دکن کی سلطنت پر حملہ آور ہو گئے تھے تم
یہ اک فوجی مہم تھی، صاف اور واضح
مگر تم نے دیا تھا نام اس کو انتظامی نقل و حرکت کا
یہی طرزِ عمل تم نے کئی موقعوں پہ اپنایا
مسلسل جارحیت سے کئی حصوں کو ہتھیایا
کرو تم یاد اس دن کہ جب تم نے
دھماکا ایٹمی بم کا کیا تھا اپنے صحرا میں
دیا تھا نام اس کو تم نے ’بدھا کے تبسم‘ کا
اور اس صورت سے تم نے جوہری یُدھ کی بِنا ڈالی
علاقے پر مُسلط کر دیا سکراتِ پیہم کو
اگر طالب کہیں بدھا کا بت مسمار کرتا ہے
تو سنگھی بابری مسجد گرا کر شاد ہوتا ہے
یہ دونوں اختلافاتِ عقائد کو کہاں برداشت کر تے ہیں ؟
یہ دونوں کور چشمی میں برابر ہیں
یہ دونوں ہی مریضِ نفسیاتی ہیں
تمہیں کیوں دوسروں کے مذہبوں سے اتنی نفرت ہے
معابد دوسروں کے کس لیے مسمار کرتے ہو
تمہارے قائدینِ وقت کیوں اسلام دشمن ہیں
گرا کر بابری مسجد کو حاصل کیا کیا تم نے
طلائی گردوارے کا تقدس کیوں مٹاتے ہو
نمازِ عشق پڑھ لیں اور بتوں پر گفتگو کر لیں
جہاں چاہیں وہاں سجدہ کریں اور ہاؤ ہو کر لیں
دریدہ دامنی تاکے چلو شغلِ رفو کر لیں
بہت سونا ہے مے خانہ چلو جام و سبو کر لیں
تمہارا دل بھی گھائل ہے ہمارا دل بھی زخمی ہے
یہ ہم پر ہے اسے مرہم کریں یا پھر لہو کر لیں
سرِ تسلیم بھی ہے پنجۂ رزم و وغا بھی ہے
کہو تو سر کو خم کر لیں کہو تو دو بہ دو کر لیں
فضا اعظمی
No comments:
Post a Comment