Sunday 19 February 2017

مرے خوابوں کے قتل عام کی ساری کہانی

مِرے خوابوں کے قتلِ عام کی ساری کہانی

مِرے اپنوں نے خوشیوں کے ہمالے سے
اترتا، رقص کرتا، بیش قیمت، قہقہوں کا بار ور پانی
مِرے دشمن کے ہاتھوں سستے داموں بیچ ڈالا ہے
اور، اب
دریائے راوی کے کنارے
ڈوبتے سورج کا منظر دیکھ کر
روتا ہُوا، یہ سوچتا ہوں
ایک دِن آنکھوں کا پانی بھی روانی بھول جائے گا
مِرے خوابوں کے قتلِ عام کی ساری کہانی بھول جائے گا
مِرے دشمن کی سانسیں ہنستے ہنستے پھول جائیں گی
مِری آنکھوں میں رہ جائے گی سوکھی ریت
جس کو شہر والے
اپنے اپنے خواب کی بنیاد رکھنے میں کھپا دیں گے
مِرے ہونے کی اَدھ موئی نشانی تک مٹا دیں گے
کفِ تخریب سے تعمیر کی امید کرتا ہوں
میں گویا یومِ عاشورہ کو یومِ عید کرتا ہوں

احمد حماد

No comments:

Post a Comment