یہ عشق عجب لمحۂ توقیر ہے جاناں
خود میرا خدا اس کی ہی تفسیر ہے جاناں
جو نام ہتھیلی کی لکیروں میں نہیں تھا
کیوں آج تلک دل پہ وہ تحریر ہے جاناں
اس خواب کی تعبیر تو ممکن ہی نہیں تھی
مانا کہ ترے ہاتھوں میں ہیں پھول ابھی تک
لیکن ترے پیروں میں جو زنجیر ہے جاناں
کیا جانئے کس روز بکھر جائے کہیں بھی
اس آس کی دل میں جو اک تنویر ہے جاناں
یہ روگ کہیں مجھ کو ہی مسمار نہ کر دے
آ، لوٹ کر آ، تُو ہی تو اکسیر ہے جاناں
تُو ہجر میں ڈوبی ہوئی نیا کا کنارہ
جیون کی ترے پاس ہی تدبیر ہے جاناں
یہ زخم جدائی کے کبھی سِلنے نہیں ہیں
تُو جان لے اپنی یہی تقدیر ہے جاناں
اس آگ کے شعلوں میں وہ پھولوں کا تبسم
اک سجدۂ بے مثل کی تصویر ہے جاناں
اب دن کی طلب ہی نہیں شاہیؔن مجھے تو
اک شام ہی اب تو مری جاگیر ہے جاناں
نجمہ شاہین کھوسہ
No comments:
Post a Comment