Tuesday, 14 February 2017

یہ عشق عجب لمحہ توقیر ہے جاناں

یہ عشق عجب لمحۂ توقیر ہے جاناں
خود میرا خدا اس کی ہی تفسیر ہے جاناں
جو نام ہتھیلی کی لکیروں میں نہیں تھا
کیوں آج تلک دل پہ وہ تحریر ہے جاناں
اس خواب کی تعبیر تو ممکن ہی نہیں تھی
آنکھوں میں مگر اس کی ہی تاثیر ہے جاناں
مانا کہ ترے ہاتھوں میں ہیں پھول ابھی تک
لیکن ترے پیروں میں جو زنجیر ہے جاناں
کیا جانئے کس روز بکھر جائے کہیں بھی
اس آس کی دل میں جو اک تنویر ہے جاناں
یہ روگ کہیں مجھ کو ہی مسمار نہ کر دے
آ، لوٹ کر آ، تُو ہی تو اکسیر ہے جاناں
تُو ہجر میں ڈوبی ہوئی نیا کا کنارہ
جیون کی ترے پاس ہی تدبیر ہے جاناں
یہ زخم جدائی کے کبھی سِلنے نہیں ہیں
تُو جان لے اپنی یہی تقدیر ہے جاناں
اس آگ کے شعلوں میں وہ پھولوں کا تبسم
اک سجدۂ بے مثل کی تصویر ہے جاناں
اب دن کی طلب ہی نہیں شاہیؔن مجھے تو
اک شام ہی اب تو مری جاگیر ہے جاناں

نجمہ شاہین کھوسہ

No comments:

Post a Comment