Friday, 10 February 2017

دل مضطرب ہے اور طبیعت اداس ہے

دل مضطرب ہے اور طبیعت اداس ہے
لگتا ہے، آج دل کے کوئی آس پاس ہے
پھر تشنہ لب کھڑا ہوں سمندر کے سامنے
یہ میری پیاس ہے کہ سمندر کی پیاس ہے
کھُلتا نہیں نگاہ پہ کہ کس جگہ پہ ہوں
شہرِ طلب ہے یا کوئی دشتِ ہراس ہے
یہ سادگی نہیں تو اسے اور کیا کہوں
پھر آسماں سے مجھ کو بھلائی کی آس ہے
جانے ہوائے شب کی اداؤں کو کیا ہوا
شوریدہ سر ہے، اور دریدہ لباس ہے

کرامت بخاری

No comments:

Post a Comment