دل مضطرب ہے اور طبیعت اداس ہے
لگتا ہے، آج دل کے کوئی آس پاس ہے
پھر تشنہ لب کھڑا ہوں سمندر کے سامنے
یہ میری پیاس ہے کہ سمندر کی پیاس ہے
کھُلتا نہیں نگاہ پہ کہ کس جگہ پہ ہوں
یہ سادگی نہیں تو اسے اور کیا کہوں
پھر آسماں سے مجھ کو بھلائی کی آس ہے
جانے ہوائے شب کی اداؤں کو کیا ہوا
شوریدہ سر ہے، اور دریدہ لباس ہے
کرامت بخاری
No comments:
Post a Comment