Sunday, 19 February 2017

عروج آدمیت حقوق نسواں

اقتباس از عروجِ آدمیت حقوقِ نسواں

یہ تھا ادبار عورت پر کہ جب پیغامِ حق آیا
خواتیں کے لیے انصاف کا پہلا سبق آیا
ہوا نازل صحیفۂ آخری توقیرِ انساں کا
دکھی عورت کی خاطر امن کا پیغامبر آیا
حرا کے غار سے روشن ہوا خورشید ایماں کا
ہوا منشورِ نو جاری حقوقِ نوعِ انساں کا

بروئے مذہبِ اسلام عورت ایک انساں ہے
وہ ایک ذی ہوش ہے، ذی فکر ہے، ذہنِ فروزاں ہے
بروئے مذہبِ اسلام اس کو حق ہے جینے کا
وہ عاقل ہے، وہ اہل الرائے ہے اور چشمِ نگراں ہے
مکمل حق ہے اس کو اپنی ذاتی رائے رکھنے کا
مکمل حق ہے اس کو فیصلہ شادی کے کرنے کا

بروئے مذہبِ اسلام حق اس کو خلع کا ہے
عبادت کا مکمل حق ہے،  حق اس کو دعا کا ہے
بروئے مذہبِ اسلام وہ حق دار نفقہ ہے
اسے فکر و عمل کا حق ہے،  حق اس کو صدا کا ہے
حدیں اللہ نے کھینچی ہیں ایسی ربطِ باہم کی
کسی تہذیب کے اندر نہیں ملتی مثال ان کی
٭
کرے وہ عقد کس سے، اس کو یہ ایجابِ مطلق ہے
اسے اقرار کا حق ہے، اسے انکار کا حق ہے
یہ ہے فرمان محکم عورتوں کو تنگ مت کرنا
زبردستی نہ لینا تم وراثت ایک عورت کی
پسند ہر شخص کی ہے مختلف، تم یاد یہ رکھنا
خدا کی اس میں حکمت ہے مزاجوں کا الگ ہونا

وہ ماں بنتی ہے اور اولاد سے وہ پیار کرتی ہے
وہ ماں کے جذبۂ ایثار سے سر شار ہوتی ہے
وہ اپنے فطرتی رجحان کا بارِ گراں لے کر
نئی دنیا کی نا ہموار راہوں میں بھٹکتی ہے
وہ ذمہ داریاں پیشہ ورانہ زندگی کی بھی اٹھاتی ہے
اسے اولاد کی الفت بھی ہر لمحے ستاتی ہے

بایں صورت وہ بٹ جاتی ہے دو خودکار حلقوں میں
ادھر وہ خود الجھ جاتی ہے کچھ خوں خوار لوگوں میں
ادھر اولاد محرومِ نگاہِ لطف ہوتی ہے
وہ محوِ نشہ و پیکار ہو جاتی ہے شہروں میں
نہ ماں اور باپ پر ہے فرض بچوں کی نگہداری
نہ بچوں پر ہے لازم اپنے دلداروں کی دلداری

ہجومِ مہ وشاں ہے، چشم و ابرو کا نشانہ ہے
نگاہ مست و سرکش پر ہوس کا تازیانہ ہے
سجی ہے محفلِ شب، دھول دھپا ہے، شرارت ہے
نگاہوں کے لیے زلف و کمر کا شاخسانہ ہے
کہیں پر کم لباسی نے ستم ڈھائے ہیں محفل پر
کہیں پر بے لباسی قہر کی صورت دل پر

حدیں اللہ نے کھینچی ہیں ایسی ربطِ باہم کی
کسی تہذیب کے اندر نہیں ملتی مثال ان کی
یہ ہے فرمانِ محکم عورتوں کو تنگ مت کرنا
زبردستی نہ لینا تم وراثت ایک عورت کی
پسند ہر شخص کی ہے مختلف، تم یاد یہ رکھنا
خدا کی اس میں حکمت ہے مزاجوں کا الگ ہونا

کہیں پر اشتہاری سیم و زر کا جال ڈالے ہیں
نمود و نام کے زنداں پہ مجبوری کے تالے ہیں
سرِ بازار سڑکوں کے کنارے حسن بکتا ہے
نئے انداز ڈھونڈے ہیں نئے حربے نکالے ہیں
یہ قربانی کا بکرا ہے ہوس کاروں کی منڈی میں
تعیش کا کھلونا ہے یہ زرداروں کی جھولی میں

غلامی سے نکل کر قید آزادی میں عورت ہے
نئی تہذیب کے ہاتھوں میں تیغ بے ملامت ہے
گرفتار ہوس ہے اور آزادی کا چرچا ہے
اکھڑتی سانس ہے اور مرکز آفات عورت ہے
خریداروں کا جھرمٹ ہے سبھی تیار بیٹھے ہیں
شکاری تیغ لے کر گھات میں ہشیار بیٹھے ہیں

کنواری ماؤں کے بچوں کی محرومی مٹے کیسے
جواب ان کے رفیقوں کے سوالوں کا ملے کیسے
ترستے ہیں جو پدرانہ محبت کے لیے ہر دم
غموں کا بار ان معصوم بچوں کا ہٹے کیسے
وہ ساری زندگی کاٹیں گے بدنامی کے زنداں میں
گزاریں گے وہ دن اپنے ملامت کے بیاباں میں

کسی کا دم نکلتا ہے ضعیفوں کے مساکن میں
کسی کی عمر کٹ جاتی ہے غیر آباد آنگن میں
کوئی آزاد ہو کر بھاگتا پھرتا ہے بے مقصد
تپنچہ ہاتھ میں لے کر نکل پڑتا ہے گلشن میں
نظامِ عائلی کی دھجیوں کو زیب تن کر کے
بہاتا ہے وہ آنسو لاشۂ فطرت کفن کر کے

فضا اعظمی

No comments:

Post a Comment