دیوار الجھ پڑی تو کبھی در الجھ پڑا
جب سے کوئی وجود کے اندر الجھ پڑا
میں آئینے کو دیکھ رہا تھا، کہ آئینہ
مجھ حیرتی سے آنکھ ملا کر الجھ پڑا
آواز دے رہا تھا کنارے پہ موج کو
ٹوٹا ہوا بدن لیے،۔ دن کی تھکن لیے
گھر لوٹتے ہی مجھ سے مِرا گھر الجھ پڑا
جیسے اسی کی پیاس سے سیراب تھا ہنوز
اس نے ہٹائے ہونٹ تو ساغر الجھ پڑا
جامِ شبِ حزیں میں تِری یاد کا چراغ
اک روشنی کی بوند گِرا کر الجھ پڑا
حماد نیازی
No comments:
Post a Comment