Monday 20 February 2017

دیوار الجھ پڑی تو کبھی در الجھ پڑا

دیوار الجھ پڑی تو کبھی در الجھ پڑا
جب سے کوئی وجود کے اندر الجھ پڑا
میں آئینے کو دیکھ رہا تھا، کہ آئینہ
مجھ حیرتی سے آنکھ ملا کر الجھ پڑا
آواز دے رہا تھا کنارے پہ موج کو
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے سمندر الجھ پڑا
ٹوٹا ہوا بدن لیے،۔ دن کی تھکن لیے
گھر لوٹتے ہی مجھ سے مِرا گھر الجھ پڑا
جیسے اسی کی پیاس سے سیراب تھا ہنوز
اس نے ہٹائے ہونٹ تو ساغر الجھ پڑا
جامِ شبِ حزیں میں تِری یاد کا چراغ
اک روشنی کی بوند گِرا کر الجھ پڑا

حماد نیازی

No comments:

Post a Comment