Saturday 11 February 2017

خوش جمالوں کی یاد آتی ہے

خوش جمالوں کی یاد آتی ہے
بے مثالوں کی یاد آتی ہے
باعثِ رشکِ مہر و ماہ تھے جو
ان ہلالوں کی یاد آتی ہے
جن سے دنیائے دل منور تھی
ان اجالوں کی یاد آتی ہے
جنکی آنکھوں میں تھا سرورِ غزل
ان غزالوں کی یاد آتی ہے 
سادگی لاجواب ہے جن کی
ان سوالوں کی یاد آتی ہے
ذکر سنتے ہیں نوجوانی کا
کچھ خیالوں کی یاد آتی ہے
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
وجؔد لطفِ سخن مبارک ہو
با کمالوں کی یاد آتی ہے

سکندر علی وجد

No comments:

Post a Comment