خوش جمالوں کی یاد آتی ہے
بے مثالوں کی یاد آتی ہے
باعثِ رشکِ مہر و ماہ تھے جو
ان ہلالوں کی یاد آتی ہے
جن سے دنیائے دل منور تھی
جنکی آنکھوں میں تھا سرورِ غزل
ان غزالوں کی یاد آتی ہے
سادگی لاجواب ہے جن کی
ان سوالوں کی یاد آتی ہے
ذکر سنتے ہیں نوجوانی کا
کچھ خیالوں کی یاد آتی ہے
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
وجؔد لطفِ سخن مبارک ہو
با کمالوں کی یاد آتی ہے
سکندر علی وجد
No comments:
Post a Comment