خوشبوۓ گُل کو یُوں نہ بکھر جانا چاہیے تھا
خود موجۂ ہوا کو ٹھہر جانا چاہیے تھا
کیوں ہو گیا محِیط مِری ساری زندگی پر
اس پَل کو، ایک پَل میں گزر جانا چاہیے تھا
دیکھا اسے تو بڑھ کے گلے لگ گیا میں خود ہی
تم کیوں گئے اُدھر کو کہ جانا نہ تھا جدھر کو
یعنی، جدھر کو دل تھا، اُدھر جانا جانا چاہیے تھا
دیکھا تھا کل بِچھَڑتے سمے جب پلٹ کے اس نے
کوہِ انا سے مجھ کو اُتر جانا چاہیے تھا
ساحرؔ مِرے خلوص پہ جب شک ہُوا تھا اس کو
اس لمحے ڈوب کر اسے مر جانا چاہیے تھا
پرویز ساحر
No comments:
Post a Comment