جب منڈیروں پہ چراغوں کی کمک جاری تھی
لفظ تھے لفظوں میں احساس کی سرداری تھی
اب جو لوٹا ہوں تو پہچان نہیں ہوتی ہے
کہاں در تھا، کہاں دیوار تھی، الماری تھی
وہ حویلی بھی سہیلی تھی پہیلی جیسی
آخری بار کہاں اس سے ملا، یاد نہیں
بس یہی یاد ہے اک شام بہت بھاری تھی
پوچھتا پھرتا ہوں گلیوں میں کوئی ہے، کوئی ہے
یہ وہ گلیاں ہیں جہاں لوگ تھے سرشاری تھی
پیڑ تھے چند مکانوں میں زبانوں جیسے
جن کی چھاؤں میں مِری سانس کی لو جاری تھی
بس کوئی خواب تھا اور خواب کے پس منظر میں
باغ تھا، پھول تھے، خوشبو کی نموداری تھی
ہم نے دیکھا ہے اسے اجلے دنوں میں حمادؔ
جن دنوں نیند تھی اور نیند میں بیداری تھی
حماد نیازی
No comments:
Post a Comment