Monday, 20 February 2017

جب منڈیروں پہ چراغوں کی کمک جاری تھی

جب منڈیروں پہ چراغوں کی کمک جاری تھی
لفظ تھے لفظوں میں احساس کی سرداری تھی
اب جو لوٹا ہوں تو پہچان نہیں ہوتی ہے
کہاں در تھا، کہاں دیوار تھی، الماری تھی
وہ حویلی بھی سہیلی تھی پہیلی جیسی
جسکی اینٹوں میں میرے خواب تھے خودداری تھی
آخری بار کہاں اس سے ملا، یاد نہیں
بس یہی یاد ہے اک شام بہت بھاری تھی
پوچھتا پھرتا ہوں گلیوں میں کوئی ہے، کوئی ہے
یہ وہ گلیاں ہیں جہاں لوگ تھے سرشاری تھی
پیڑ تھے چند مکانوں میں زبانوں جیسے
جن کی چھاؤں میں مِری سانس کی لو جاری تھی
بس کوئی خواب تھا اور خواب کے پس منظر میں
باغ تھا، پھول تھے، خوشبو کی نموداری تھی
ہم نے دیکھا ہے اسے اجلے دنوں میں حمادؔ
جن دنوں نیند تھی اور نیند میں بیداری تھی

حماد نیازی

No comments:

Post a Comment