Friday 3 February 2017

مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں

مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں
دو آڑھے ترچھے رکھ لیے تنکے جہاں کہیں
پہرا بٹھا دیا ہے یہ قیدِ حیات نے
سایہ بھی ساتھ ساتھ ہے جاؤں جہاں کہیں
جاتے کدھر ہو تم صفِ محشر میں خیر ہے
دامن نہ ہو خدا کے لیے دھجیاں کہیں
بس مجھ کو داد مل گئی محنت وصول ہے
سن لے غزل یہ بلبلِ ہندوستاں کہیں
شاعرؔ وہ آج پھر وہیں جاتے ہوئے ملے
دشمن کے سر پہ ٹوٹ پڑے آسماں کہیں

آغا شاعر قزلباش

No comments:

Post a Comment