پاس ہونے سے جدا اچھا ہے
ایسے مانے سے خفا اچھا ہے
عشق سب لے گیا ہے عقل و خرد
کوئی بتلائے کہ کیا اچھا ہے
حادثے راہوں کے گھر لا ڈالے
طنز اچھا ہے مزاح اچھا ہے
پوچھتے وہ ہیں بتا اچھا ہے
خوب دو ٹوک کہا منہ در منہ
تو پرانا ہے نیا اچھا ہے
ہاتھ اس کے تھے، مِری گردن تھی
اور دلاسہ تھا چھرا اچھا ہے
شوخ جو کہتا ہے برا ہم کو
تھا کبھی کہتا برا اچھا ہے
ہے دغا بات بری مان لیا
پر جو اس نے ہے دیا اچھا ہے
غم کسے پھر ہو چلے جانے کا
گر کہے خلق جیا اچھا ہے
دیکھ دنیا کا سبھی اچھا برا
ہم کہیں گے کہ خدا اچھا ہے
واۓ خوش فہمی یہ تیری ابرکؔ
سمجھے دنیا سے ذرا اچھا ہے
جھوٹ شامل ہے تِرے لکھے میں
یہ الگ بات لکھا اچھا ہے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment