آخر کو ضرورت ہی خریدار کی نکلی
مریم سی وہ لعبت بھی تو بازار کی نکلی
دیکھو کبھی مقتل، کبھی گلزار لگے ہے
تصویر عجب کوچۂ دلدار کی نکلی
آنکھوں کی تسلی نہیں ہوتی تو نہ ہووے
کیوں یار کے انکار سے افسردہ ہے اے دل
نادان! کوئی راہ تو اقرار کی نکلی
وہ گریہ کناں اور دلاسا میں اسے دوں
کیا طرفہ طبیعت مرے غمخوار کی نکلی
وا رہنے دے یا رب! درِ توبہ کہ ابھی تو
حسرت ہی کہاں تیرے گنہگار کی نکلی
کل ہجر کی شب، روزِ قیامت کی طرح تھی
دن نکلا نہ جاں ہی ترے بیمار کی نکلی
احمد فراز
No comments:
Post a Comment