Saturday, 4 February 2017

آخر کو ضرورت ہی خریدار کی نکلی

آخر کو ضرورت ہی خریدار کی نکلی
مریم سی وہ لعبت بھی تو بازار کی نکلی
دیکھو کبھی مقتل، کبھی گلزار لگے ہے
تصویر عجب کوچۂ دلدار کی نکلی
آنکھوں کی تسلی نہیں ہوتی تو نہ ہووے
ہم خوش ہیں کوئی شکل تو دیدار کی نکلی
کیوں یار کے انکار سے افسردہ ہے اے دل
نادان! کوئی راہ تو اقرار کی نکلی
وہ گریہ کناں اور دلاسا میں اسے دوں
کیا طرفہ طبیعت مرے غمخوار کی نکلی
وا رہنے دے یا رب! درِ توبہ کہ ابھی تو
حسرت ہی کہاں تیرے گنہگار کی نکلی
کل ہجر کی شب، روزِ قیامت کی طرح تھی
دن نکلا نہ جاں ہی ترے بیمار کی نکلی

احمد فراز

No comments:

Post a Comment