عجلت کو اختیار نہ کر انتظار کر
خود پر جنوں سوار نہ کر انتظار کر
یہ اضطرار ضعفِ جنوں کی دلیل ہے
یوں خود کو بے قرار نہ کر انتظار کر
مانا کہ شہرِ دل کی فصیلوں میں چھید ہیں
بیٹا یہ عمر تابِ طلب کاٹنے کی ہے
اس کمسنی میں پیار نہ کر انتظار کر
ممکن ہے شیخِ جاں کی تجلی فریب ہو
دنیا و دیں نثار نہ کر انتظار کر
ہونگے ضرور ختم یہ دردوں کے سلسلے
دریائے صبر پار نہ کر انتظار کر
رزم ِ وفا میں سہہ کے دکھا تیرِ طنز کو
تیغِ زباں سے وار نہ کر انتظار کر
کہہ کہہ کے بار بار جدائی کی بات کو
تو اور پائیدار نہ کر انتظار کر
دشتِ جنوں ابھی ہے غبارِ حواس میں
یوں شتر بے مہار نہ کر انتظار کر
آزاد ہو گئے ہیں اسیرانِ راستی
اب دل کا اعتبار نہ کر انتظار کر
ادریس آزاد
No comments:
Post a Comment