Monday, 27 February 2017

اس نئے غم سے کنارہ بھی تو ہو سکتا ہے

اس نئے غم سے کنارہ بھی تو ہو سکتا ہے
عشق پھر ہم کو دوبارہ بھی تو ہو سکتا ہے
آپ اندازہ لگاتے رہیں بس جگنو کا
مری مٹھی میں ستارہ بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ یہ جان لٹا دی جائے
اس کی یادوں پہ گزارہ بھی تو ہو سکتا ہے
دل کی بستی سے سرِ شام جو اٹھا ہے دھواں
اچھے موسم کا اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے
آپ کو ہم سے محبت بھی تو ہو سکتی ہے
اور محبت میں خسارہ بھی تو سکتا ہے
یہ جو پھیلا ہے فلک تک شبِ ہجراں کا غبار
مری وحشت کا نظارہ بھی تو ہو سکتا ہے

ناظر وحید

No comments:

Post a Comment