Wednesday 22 February 2017

ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
ابھی تازہ کھدی قبروں کی مٹی بھی نہیں سوکھی
اگربتی کی خوشبو سانس کو مصلوب کرتی ہے
پسِ چشمِ عزا ٹھہرے سرشکِ حشر بستہ میں ابھی احساس کا نم ہے
ابھی پُرسے کو آئے نوحہ گر واپس نہیں پہنچے
ابھی کنزِ غمِ جاوید میں صدہا الم ہیں، عرصۂ غم ہے
عزادارو! ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
نئے تابوت پچھلے چوک پر ہیں، نوحہ و نالہ کی لَے مدھم رکھو
(گلہائے تازہ کا کوئی نوحہ نہیں کہنا (زمستاں ہے 
ابھی وہ خوش نفس واپس نہیں پہنچے
علی اصغر، علی اکبر نہیں لوٹے
ابھی قاسم کی مہندی گھولنا باقی ہے پانی آئے تو نوحہ اٹھائیں گے
ابھی زنجیرِ گریہ میں کئی بے آب حلقے ہیں
اگربتی کی خوشبو ہڈیوں تک آن پہنچی ہے
مگر پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے

اختر عثمان

No comments:

Post a Comment