عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ
ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
ابھی تازہ کھدی قبروں کی مٹی بھی نہیں سوکھی
اگربتی کی خوشبو سانس کو مصلوب کرتی ہے
پسِ چشمِ عزا ٹھہرے سرشکِ حشر بستہ میں ابھی احساس کا نم ہے
ابھی پُرسے کو آئے نوحہ گر واپس نہیں پہنچے
عزادارو! ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
نئے تابوت پچھلے چوک پر ہیں، نوحہ و نالہ کی لَے مدھم رکھو
(گلہائے تازہ کا کوئی نوحہ نہیں کہنا (زمستاں ہے
ابھی وہ خوش نفس واپس نہیں پہنچے
علی اصغر، علی اکبر نہیں لوٹے
ابھی قاسم کی مہندی گھولنا باقی ہے پانی آئے تو نوحہ اٹھائیں گے
ابھی زنجیرِ گریہ میں کئی بے آب حلقے ہیں
اگربتی کی خوشبو ہڈیوں تک آن پہنچی ہے
مگر پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
اختر عثمان
No comments:
Post a Comment