Tuesday, 21 February 2017

تو رزم گاہ تجسس میں دو بدو بھی نہیں

تُو رزم گاہِ تجسس میں دو بدو بھی نہیں
شکست خوردہ نہیں میں تو سرخرو بھی نہیں
اسے تو عالمِ لاہوت کہہ کے ٹال دیا
وہاں سے خاک ملے گی وہاں تو ’ہُو‘ بھی نہیں
تجھے جہاں کے پس و پیش میں تلاش کیا
تو جا بہ جا بھی نہیں ہے، تو رو برو بھی نہیں
خیال و خواب میں بستے ہیں تُو بھی، میں بھی مگر
جہاں میں، میں بھی نہیں ہوں، جہاں میں تُو بھی نہیں
سِرے سے کچھ بھی نہیں ہے کہ جو حقیقت ہو
یہ سنگ و خشت خیالی ہیں ان کو چھو بھی نہیں
کہیں ثبوت نہیں ہے وجود کا کوئی
جو میرے دِل میں نہیں ہے وہ چار سُو بھی نہیں
یہ سوز و ساز، یہ درد و الم، یہ رقص و سرود
یہ دل بھی، آنکھ بھی، طوفان بھی، لہو بھی نہیں
میرا یہ غم کہ کبھی کامیاب ہو نہ سکا
تری خوشی کے ترے رو برو عدو بھی نہیں
نہیں نہیں کوئی باطل نہیں، کوئی بھی نہیں
کسی شریر میں جب سرکشی کی خو بھی نہیں
تمام لفظ ہمیشہ سے بے معانی ہیں
یہ اتنا سچ ہے کہ اب اس پہ گفتگو بھی نہیں
مجھے یقیں ہے کہ میں ہی نہیں کہیں موجود
تو اس کے بعد مجھے تیری جستجو بھی نہیں
میں خود کو سارے زمانے میں دیکھ آیا ہوں
میں در بدر بھی نہیں ہوں، میں کو بہ کو بھی نہیں

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment