Monday 27 February 2017

ہم نے جلتے ہوئے خیموں کی وہ شامیں رکھ دیں

ہم نے جلتے ہوئے خیموں کی وہ شامیں رکھ دیں
شعر میں لفظ رکھے، لفظ میں چیخیں رکھ دیں
میں نے بھی اس کو دیا پہلی ملاقات میں دل
میرے دامن میں بھی اس نے مری غزلیں رکھ دیں
یوں لگا آنکھ بچانے پہ جھپکتی ہے پلک
اسی تصویر پہ میں نے بھی نگاہیں رکھ دیں
روشنی کے ہر اک امکان پہ ڈالا پردہ
ایک لڑکی نے مری سوچ پہ زلفیں رکھ دیں
پھر اٹھا یاد کے آنگن سے اداسی کا دھواں
کس نے طاقوں میں جلا کر مری شامیں رکھ دیں
عشق اتنا تھا کہ محفوظ کہاں رکھتے ہم
اور ماں باپ نے بستے میں کتابیں رکھ دیں
پیش جب کرنے لگے سب ترے جلووں کو خراج
ہم نے بھی لا کے وہاں طشت میں آنکھیں رکھ دیں 


ناظر وحید

No comments:

Post a Comment