Wednesday 22 February 2017

یہ عشق ہے جنوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی

یہ عشق ہے جنوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
یہ کاروبار یوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
سینے کا سنگ ہے تو سنبھل کر سہارئیے
سچ کوہِ بے ستوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
کس کس جگہ ذلیل ہو کس کس جگہ ہو خوار
انسان یوں زبوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
مدت ہوئی کہ بھول چکا ہے غم فراق
اب سوزِ اندروں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
مصرع تراشتے ہو کہ جادو جگاتے ہو
ہم سے تو یہ فسوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
کچھ طے کرو تو چین سے گزرے گی زندگی
کن حسرتوں کا خوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
اخترؔ بس ایک عشق ہے وہ بھی بجھا بجھا
یہ شعلہ سبز کیوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی

اختر عثمان

No comments:

Post a Comment