یہ عشق ہے جنوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
یہ کاروبار یوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
سینے کا سنگ ہے تو سنبھل کر سہارئیے
سچ کوہِ بے ستوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
کس کس جگہ ذلیل ہو کس کس جگہ ہو خوار
مدت ہوئی کہ بھول چکا ہے غم فراق
اب سوزِ اندروں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
مصرع تراشتے ہو کہ جادو جگاتے ہو
ہم سے تو یہ فسوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
کچھ طے کرو تو چین سے گزرے گی زندگی
کن حسرتوں کا خوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
اخترؔ بس ایک عشق ہے وہ بھی بجھا بجھا
یہ شعلہ سبز کیوں نہیں ہوتا ہے سائیں جی
اختر عثمان
No comments:
Post a Comment