آج بھی شاہیؔں ساتھ ہے میرے بچھڑے ہوۓ اک ساتھ کا دکھ
دل میں آ کر بیٹھ گیا ہے، ٹوٹی اُجڑی ذات کا دکھ
موت کو جیون جان کے شب بھر جاگنا ہے معمول مرا
شب بھر چنتی رہتی ہوں میں ہجر میں ڈوبی رات کا دکھ
خوشیوں کے پیراہن میں ملبوس ہیں یوں تو لوگ سبھی
اشکوں کو دریا کر ڈالا،۔۔ پھر دریا کو بحر کیا
عشق نے آنکھ کو بخشا ہے اک ہجر بھری برسات کا دکھ
حاکم سے کیا پوچھیں ہم جو حال بھی ہے مخلوق کا اب
تپتا سورج جان سکا کب کہر میں لپٹی رات کا دکھ
جی چاہے اس چارہ گر کا حال کبھی میں جان سکوں
اس کو تو معلوم نہ ہو گا ہاتھ سے چھوٹے ہاتھ کا دکھ
میرے مولا! اور کسی دکھ پر کیا تجھ سے شکوہ ہو
خود کو تنہا کر دیتا ہے عشق میں کھائی مات کا دکھ
چلتے چلتے وصل اچانک ہجر کی شام میں ڈھل جاتا ہے
تم کیا جانو، کیا ہوتا ہے بات سے نکلی بات کا دکھ
میں نے اس کے کہنے پر تریاق سمجھ کر زہر پیا
اسی لیے تو بھول چکی شاہینؔ میں آج حیات کا دکھ
نجمہ شاہین کھوسہ
No comments:
Post a Comment