Saturday 11 February 2017

داستانوں میں ڈھال دی گئی ہے

داستانوں میں ڈھال دی گئی ہے 
یوں محبت سنبھال دی گئی ہے 
سب وفا پر دلیل مانگتے تھے 
تیری میری مثال دی گئی ہے 
شہر جلنے پہ آ گیا ہو گا 
آگ کو سبز شال دی گئی ہے
گاؤں آنے میں کیا مضائقہ ہے 
اب سڑک بھی نکال دی گئی ہے
روز لینے کو دستخط دل کے
ان درختوں کو چھال دی گئی ہے 
تیرے ہونٹوں سے مستعار یہ آگ 
لے کے پھولوں میں ڈال دی گئی ہے 
خوش ہیں سب پھول کی حفاظت پر 
باغ کی دیکھ بھال دی گئی ہے 

احمد عطاءاللہ

No comments:

Post a Comment