داستانوں میں ڈھال دی گئی ہے
یوں محبت سنبھال دی گئی ہے
سب وفا پر دلیل مانگتے تھے
تیری میری مثال دی گئی ہے
شہر جلنے پہ آ گیا ہو گا
گاؤں آنے میں کیا مضائقہ ہے
اب سڑک بھی نکال دی گئی ہے
روز لینے کو دستخط دل کے
ان درختوں کو چھال دی گئی ہے
تیرے ہونٹوں سے مستعار یہ آگ
لے کے پھولوں میں ڈال دی گئی ہے
خوش ہیں سب پھول کی حفاظت پر
باغ کی دیکھ بھال دی گئی ہے
احمد عطاءاللہ
No comments:
Post a Comment