حبس میں لپٹا ہوا موسم اگر ساون بنے
سانس دروازے کھلیں تن روح کا مسکن بنے
مفلسی آنکھوں کے ایوانوں سے باہر آ گئی
خواب میزوں پر رکھے تو کانچ کے برتن بنے
ہر صراحی چومتا ہوں اس نشے کے ساتھ میں
رات کچھ آنسو گرائے صبر کی دیوار پر
صبح دیکھا تو بہتر رنگ کے درپن بنے
ہجر کی تفسیر پر چھڑکا گیا آہوں کا زہر
حرف کاغذ پر چڑھے تو اژدہوں کے پھن بنے
اک نظر میں چھین لیتے ہیں بصارت آنکھ کی
کوچۂ دلدار کے سارے بدن کاہن بنے
یاس کی مے دل سبوچے میں بھری اور پی گئے
رنج کی سرگم چھڑی جب تو سخن آہن بنے
فقیہہ حیدر
No comments:
Post a Comment