Wednesday 31 December 2014

زخم در زخم اذیت کا جہاں پهیل گیا

زخم در زخم اذیت کا جہاں پهیل گیا
شام پهیلی ہے کہ آنکھوں میں دھواں پھیل گیا
صحن تک آنے لگے چاند جبینوں والے
دشت پھیلا ہے کہ اب شہرِ بُتاں پهیل گیا
سرحدِ عشق پہ جا پہنچے مسافر غم کے
اور پهر راه میں اک کوهِ گراں پهیل گیا

حجرہ عشق میں اک چلہ کشی ہوتی ہے

حجرۂ عشق میں اک چلہ کشی ہوتی ہے
پھر کہیں جا کے میاں! شعر گری ہوتی ہے
کارِ آسان نہیں ہے یہ فنِ مصرعِ تر
ہر غزل ایک اذیت میں کہی ہوتی ہے
رات تک پھیلتا رہتا ہے مِرے دل میں دھواں
دن نکلتے ہی یہاں خاک پڑی ہوتی ہے

رکھا ہوا ہے سینت کر اس خاک نے مجھے

رکھا ہوا ہے سینت کر اس خاک نے مجھے
ورنہ بہت پکارا تھا افلاک نے مجھے
ممکن ہے کا ئنات سے آگے دکھائی دے
روکا ہوا ہے دیدۂ نمناک نے مجھے
میں نخلِ برگ و بار تو تھا ہی نہیں کبھی
رُسوا کِیا ہے کیوں خس و خاشاک نے مجھے

ایک میں ہوں ایک میری رائیگانی رقص میں

ایک میں ہوں ایک میری رائیگانی رقص میں
تیسرا کوئی نہیں ہے یار جانی! رقص میں
وه تو یوں تھا جسم کی تقسیم آڑے آ گئی
ورنہ میرے ساتھ تھی میری جوانی رقص میں
دُور اِک درویش کے حُجرے کے بالکل سامنے
آ کبھی دنیا دکھاؤں لا مکانی رقص میں

کیا کہیں کشف و کرامات میں رکھا ہوا ہے

کیا کہیں کشف و کرامات میں رکھا ہوا ہے
یا تیرا عشق مناجات میں رکھا ہوا ہے
مجتہد! عشق کی تفسیر جو ممکن ہی نہیں
کس لئے پھر اسے آیات میں رکھا ہوا ہے
عین ممکن تھا تِرے ہاتھ سے جاتا رہتا
تُو نے اچھا کیا اوقات میں رکھا ہوا ہے

کاندھے کے بھی قریب تیرا سر نہیں ابھی

کاندھے کے بھی قریب تیرا سر نہیں ابھی
دنیا! تو میرے قد کے برابر نہیں ابھی
تُو میرے دستیاب نہ ہونے کا غم نہ کر
میں کم طلب تو خود کو میسّر نہیں ابھی
یہ بارِ ہجرِ یار ہے مشکل مِرے خدا
اتنی سکت وجود کے اندر نہیں ابھی

Tuesday 30 December 2014

تم جو روٹھے تو قیامت نے کہانی کر دی

تم جو روٹھے تو قیامت نے کہانی کر دی
لازوالی مِری اِک آن میں فانی کر دی
راز کا رشتہ بجُز درد نہیں، محرمِ راز
تُو نے ہر ہر رگِ بے تاب سیانی کر دی
کتنا روشن تھا وہ مَن موہنا لہجہ تیرا
وقت کی دُھول نے تصویر پرانی کر دی

حسن کندن ہے ترا اور نکھر جائے گا

حُسن کُندن ہے تِرا اور نکھر جائے گا
جب جوانی کا حسیں دور گزر جائے گا
تُو مِرے دل سے دبے پاؤں نکل جائے تو کیا
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے کدھر جائے گا
نام لکھتا ہے مِرا اپنی ہتھیلی پہ، مگر
میں نے پوچھا تو کھڑے پاؤں مُکر جائے گا

چلو تو آج سے الفت کا باب ختم ہوا

چلو تو آج سے الفت کا باب ختم ہوا
تمہارے ساتھ ہمارا حساب ختم ہوا
سوال اور جواب ایک ساتھ جاری تھے
سوال ختم ہوا جب جواب ختم ہوا
نظر نہیں تھی ستمگر نہ تابِ نظارہ
حجاب باقی رہا جب حجاب ختم ہوا

وہ میرے واسطے آئے یہ ہو نہیں سکتا

وہ میرے واسطے آئے، یہ ہو نہیں سکتا
وفا کا سر نہ جھکائے، یہ ہو نہیں سکتا
وہ خود بھی درد کا مارا ہے جانتا ہوں مگر
وہ دل کی بات بتائے، یہ ہو نہیں سکتا
کہیں کبھی کوئی وعدہ وفا نہ ہو جائے
اسے یہ غم نہ ستائے، یہ ہو نہیں سکتا

Sunday 28 December 2014

روشنی یہ کس کی کھڑکیوں میں بولے

روشنی یہ کس کی کھڑکیوں میں بولے
کون ہے جو ہر پَل آہٹوں میں بولے
خواب اُگ رہے ہیں کس کے میرے اندر
کون ہے جو سارے موسموں میں بولے
کس کی آہٹوں سے جگمگا اُٹھی ہوں
کس کا عکس میرے آئینوں میں بولے

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

”نیلو“

تُو کہ ناواقفِ آدابِ شہنشاہی تھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تجھ کو انکار کی جرأت ہوئی تو کیونکر
سایۂ شاہ میں اس طرح جیا جاتا ہے

اہلِ ثروت کی یہ تجویز ہے سرکش لڑکی
تجھ کو دربار میں کوڑوں سے نچایا جائے

اب دہر میں بے یار و مددگار نہیں ہم

’’ترانہ“

اب دہر میں بے یار و مددگار نہیں ہم
پہلے کی طرح بے کس و لاچار نہیں ہم
آتا ہے ہمیں اپنے مقدر کو بنانا
تقدیر پہ شاکر پسِ دیوار نہیں ہم
تم ظلم کئے جاؤ، خدا ہی رہو اپنے
ساتھی ہیں برابر کے، پرستار نہیں ہم

خطرے میں اسلام نہیں

خطرے میں اسلام نہیں

خطرہ ہے زرداروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں

ساری زمیں کو گھیرے ہوئے ہیں

بہت میں نے سنی آپ کی تقریر مولانا

“مولانا’’

بہت میں نے سنی آپ کی تقریر مولانا
مگر بدلی نہیں اب تک مِری تقدیر مولانا
خدارا! شکر کی تلقین اپنے پاس ہی رکھیں
یہ لگتی ہے مِرے سینے پہ بن کر تیر مولانا
نہیں میں بول سکتا جھوٹ اس درجہ ڈھٹائی سے
یہی ہے جرم میرا، اور یہی تقصیر مولانا

علمائے سو کے نام

علمائے سُو کے نام

امیروں کی حمایت میں دیا تم نے سدا فتویٰ
نہیں ہے دِین فروشوں ہم پہ یہ کوئی نیا فتویٰ
سفینہ اہلِ زر کا ڈوبنے والا ہے، شب زادو
کوئی فتویٰ بچا نہیں سکتا جاگیرداروں کو
بہت خوں پی چکے ہو اپنا بھی انجام اب دیکھو

نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا

نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
اگر ہے فکرِ گریباں تو گھر میں جا بیٹھو
یہ وہ عذاب ہے، دیوانگی سے جائے گا
بجھے چراغ، لٹیں عصمتیں، چمن اجڑا
یہ رنج جس نے دئیے، کب خوشی سے جائے گا

بے ضمیری جسے گوارا ہو

“تم سے امیدِ خیر لاحاصل’’
(تنقیدی نظم)

بے ضمیری جسے گوارا ہو
وہی ہمسفر تمہارا ہو
ضبط کرتے ہو تم روز اخبار
یہی ہے آزادئ لبِ اظہار

Saturday 27 December 2014

مانا کہ مشت خاک سے بڑھ کر نہیں ہوں میں

مانا کہ مُشتِ خاک سے بڑھ کر نہیں ہوں میں
لیکن ہوا کے رحم و کرم پر نہیں ہوں میں
انسان ہوں، دھڑکتے ہوئے دل پہ ہاتھ رکھ
یوں ڈوب کر نہ دیکھ سمندر نہیں ہوں میں
چہرے پہ مَل رہا ہوں سیاہی نصیب کی
آئینہ ہاتھ میں ہے، سکندر نہیں ہوں میں

شعلہ ہوں، بھڑکنے کی گزارش نہيں کرتا

شعلہ ہوں، بھڑکنے کی گزارش نہيں کرتا 
سچ منہ سے نکل جاتا ہے، کوشش نہيں کرتا 
گرتی ہوئی ديوار کا ہمدرد ہوں، ليکن 
چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش نہيں کرتا 
ماتھے کے پسينے کی مہک آئے نہ جس سے 
وہ خون ميرے جسم ميں گردش نہيں کرتا 

بارودی بھیجے بھیجوں میں بارود بھرا ہے

“بارودی ”بھیجے
٭
یہ جو تم
اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر
تھوڑی سی حق تلفی کو بنیاد بنا کر
گلشن گلشن، مکتب مکتب، خون بہا کر
بن آئی“ میں اپنی جان گنواتے ہو”
کس دل کی تسکین کا ساماں کرتے ہو

میں نہیں تھا ٹھیک یا تیرا رویہ تھا غلط

میں نہیں تھا ٹھیک یا تیرا رویہ تھا غلط
وقت کی گاڑی کا کوئی ایک پہیا تھا غلط
عشقِ بے ترتیب میں بے تال ڈالی تھی دھمال
کم سمجھ سمجھا کہ میرا تھیا تھیا تھا غلط
چاہیے تھا بولتا تجھ سے میں تیشے کی زبان
سنگ تھا تو، تجھ پہ اسلوبِ رقیہ تھا غلط

عذاب ہجر بڑھا لوں اگر اجازت ہو

عذابِ ہجر بڑھا لوں، اگر اجازت ہو
اک اور زخم میں کھا لوں، اگر اجازت ہو
تمہارے عارض و لب کی جدائی کے دن ہیں
میں جام منہ سے لگا لوں، اگر اجازت ہو
تمہارا حسن، تمہارے خیال کا چہرہ
شباہتوں میں چھپا لوں، اگر اجازت ہو

چلو باد بہاری جا رہی ہے

چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پِیا جی کی سواری جا رہی ہے
شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے
فغاں اے دشمنی دارِ دل و جاں
مری حالت سُدھاری جا رہی ہے

تم سے جانم عاشقی کی جائے گی

تم سے جانم عاشقی کی جائے گی
اور ہاں یکبارگی کی جائے گی
کر گئے ہیں کوچ اس کوچے کے لوگ
اب تو بس آوارگی کی جائے گی
تم سراپا حُسن ہو، نیکی ہو تم
یعنی اب تم سے بدی کی جائے گی

شام ہوئی ہے یار آئے ہیں یاروں‌ کے ہمراہ چلیں

شام ہوئی ہے یار آئے ہیں یاروں‌ کے ہمراہ چلیں
آج وہاں قوّالی ہو گی جونؔ! چلو درگاہ چلیں
اپنی گلیاں، اپنے رمنے، اپنے جنگل، اپنی ہوا
چلتے چلتے وجد میں آئیں راہوں میں بے راہ چلیں
جانے بستی میں جنگل ہو، یا جنگل میں بستی ہو
ہے کیسی کچھ نا آگاہی، آؤ! چلو ناگاہ چلیں

ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے

ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے
پاؤں پِھسلا تو آسمان میں تھے
ہے ندامت، لہو نہ رویا دل
زخم دل کے کسی چٹان میں تھے
میرے کتنے ہی نام اور ہمنام
میرے اور میرے درمیان میں تھے

مرا اک مشورہ ہے التجا نئیں

مِرا اک مشورہ ہے التجا نئیں
تُو میرے پاس سے اس وقت جا نئیں
کوئی دم چین پڑ جاتا مجھے بھی
مگر میں خود سے دم بھر کو جدا نئیں
سفر درپیش ہے اک بے مسافت
مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نئیں

کچھ کہوں کچھ سنو ذرا ٹھہرو

کچھ کہوں، کچھ سنو، ذرا ٹھہرو
ابھی زندوں میں‌ ہوں، ذرا ٹھہرو 
منظرِ جشنِ قتلِ عام کو میں
جھانک کر دیکھ لوں، ذرا ٹھہرو
مت نکلنا، کہ ڈوب جاؤ گے
خوں ہے بس، خوں ہی خوں، ذرا ٹھہرو

خوش گزران شہر غم خوش گزراں گزر گئے

خوش گزرانِ شہرِ غم، خوش گزراں گزر گئے
زمزمہ خواں ‌گزر گئے، رقص کناں گزر گئے
اس کی وفا کے باوجود اس کو نہ پا کے بدگماں
کتنے یقیں بچھڑ گئے، کتنے گماں گزر گئے
اب یہی طے ہوا کہ ہم تجھ سے قریب تر نہیں
آج ترے تکلفات، دل پہ گراں گزر گئے

Friday 26 December 2014

ہجر شب میں اک قرار غائبانہ چاہیے

ہجر شب میں اک قرار غائبانہ چاہیے
غیب میں اک صورت ماہِ شبانہ چاہیے
سن رہے ہیں جس کے چرچے شہر کی خلقت سے ہم
جا کے اک دن اس حسین کو دیکھ آنا چاہیے
اس طرح آغاز شاید اک حیاتِ نو کا ہو
پچھلی ساری زندگی کو بھول جانا چاہیے

کیسی کیسی بے ثمر یادوں کے ہالوں میں رہے

کیسی کیسی بے ثمر یادوں کے ہالوں میں رہے
ہم بھی اتنی زندگی کیسے وبالوں میں رہے
اک نظربندی کا عالم تھا نگر کی زندگی
قید میں رہتے تھے جب تک شہر والوں میں رہے
ہم اگر ہوتے تو ملتے تجھ سے بھی جانِ جہاں
خواب تھے ناپید دنیا کے ملالوں میں رہے

بارشوں میں اس سے جا کے ملنے کی حسرت کہاں

بارشوں میں اس سے جا کے ملنے کی حسرت کہاں
کوکنے دو کوئلوں کو اب مجھے فرصت کہاں
جی تو کہتا ہے کہ اس کو ساتھ ہی رکھیں مگر
اپنے پاس اس حُسنِ عیش انگیز کی قیمت کہاں
تلخ اس کو کر دیا اربابِ قریہ نے بہت
ورنہ اک شاعر کے دل میں اس قدر نفرت کہاں

غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا

غیروں سے مل کے ہی سہی، بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا
جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھ کر
یہ شہرِ خوف خود سے جگر چاک تو ہوا
یہ تو ہوا کہ آدمی پہنچا ہے ماہ تک
کچھ بھی ہوا، وہ واقفِ افلاک تو ہوا

بس ایک ماہ جنوں خیز کی ضیا کے سوا

بس ایک ماہِ جنوں خیز کی ضیا کے سوا
نگر میں کچھ نہیں باقی رہا ہوا کے سوا
ہے ایک اور بھی صورت کہیں مری ہی طرح
اک اور شہر بھی ہے قریۂ صدا کے سوا
اک اور سمت بھی ہے اس سے جا کے ملنے کی
نشان اور بھی ہیں اک نشانِ پا کے سوا

پت جھڑ سے گلہ ہے نہ شکایت ہوا سے ہے

پت جھڑ سے گِلہ ہے، نہ شکایت ہوا سے ہے
پھولوں کو کچھ عجیب محبت ہوا سے ہے
سرشارئ شگفتگئ گُل کو ہے کیا خبر
منسُوب ایک اور حکایت ہوا سے ہے
رکھا ہے آندھیوں نے ہی، ہم کو کشِیدہ سر
ہم وہ چراغ ہیں جنہیں نِسبت ہوا سے ہے

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے، بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گزر جائے گا

Thursday 25 December 2014

کوئی میرا امام تھا ہی نہیں

کوئی میرا امام تھا ہی نہیں
میں کسی کا غلام تھا ہی نہیں
تم کہاں سے خدا اٹھا لائے
اس کہانی میں رام تھا ہی نہیں
جس قدر شورِ آب و گل تھا یہاں
اس قدر اہتمام تھا ہی نہیں

کب کہا پیچ و خم نکال کے رکھ

کب کہا پیچ و خم نکال کے رکھ
پھر بھی گیسو ذرا سنبھال کے رکھ
لوگ پہچان ہی نہ لیں تجھ کو
ابھی چہرے پہ خاک ڈال کے رکھ
صرف اشکوں سے میں بہلتا نہیں
آنکھ سے خواب بھی نکال کے رکھ

عشق کرنا ہے تو ہجرت کیجے

عشق کرنا ہے تو ہجرت کیجے
ورنہ گھر بیٹھ کے وحشت کیجے
دشت آراستہ کیجے پہلے
اور پھر اس میں سکونت کیجے
دیکھیے جسم صحیفوں جیسے
اور آنکھوں سے تلاوت کیجے

کب تلک مدعا کہے کوئی

کب تلک مُدعا کہے کوئی
نہ سنو تم تو کیا کہے کوئی
غیرت عشق کو قبول نہیں
کہ تجھے بے وفا کہے کوئی
ہر کوئی اپنے غم میں ہے مصروف
کس کو درد آشنا کہے کوئی

حاصل عشق ترا حسن پشیماں ہی سہی

حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی
میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی
حُسن بھی حُسن ہے محتاجِ نظر ہے جب تک
شعلۂ عشق چراغِ تہِ داماں ہی سہی
کیا خبر خاک ہی سے کوئی کرن پھوٹ پڑے
ذوقِ آوارگئ دشت و بیاباں ہی سہی

رنگ برسات نے بھرے کچھ تو

رنگ برسات نے بھرے کچھ تو
زخم دل کے ہوئے ہرے کچھ تو
فرصتِ بے خودی غنیمت ہے
گردشیں ہو گئیں پرے کچھ تو
کتنے شوریدہ سر تھے پروانے
شام ہوتے ہی جل مرے کچھ تو

جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے

جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے
ہم نے دیکھے ہیں وہ سنّاٹے بھی
جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے
دِل کا یہ حال ہوا تیرے بعد
جیسے وِیران سرا ہوتی ہے

کوئی صورت آشنا اپنا نہ بیگانہ کوئی

کوئی صورت آشنا اپنا نہ بے گانہ کوئی
کچھ کہو یارو! یہ بستی ہے کہ ویرانہ کوئی
صبحدم دیکھا تو سارا باغ تھا گل کی طرف
شمع کے تابوت پر رویا نہ پروانہ کوئی
خلوتوں میں روئے گی چھپ چھپ کے لیلائے غزل
اس بیاباں میں نہ اب آئے گا دیوانہ کوئی

زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا

زباں سخن کو، سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ میری طرزِ سخن کو ترسے گا
نئے پیالے سہی، تیرے دور میں ساقی
یہ دور میری شرابِ کہن کو ترسے گا
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کے اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا

تیری نگاہ کے جادو بکھرتے جاتے ہیں

تیری نگاہ کے جادو بکھرتے جاتے ہیں
جو زخم دل کو ملے تھے وہ بھرتے جاتے ہیں
تیرے بغیر وہ دن بھی گزر گئے آخر
تیرے بغیر یہ دن بھی گزرتے جاتے ہیں
لے چلو مجھے دریائے شوق کی موجو
کہ ہمسفر تو مِرے پار اُترتے جاتے ہیں

زندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی

زندگی بھر وفا ہمِیں سے ہوئی 
سچ ہے یارو! خطا ہمِیں سے ہوئی
دل نے ہر داغ کو رکھا محفوظ
یہ زمیں خوشنما ہمِیں سے ہوئی
ہم سے پہلے زمینِ شہرِ وفا
خاک تھی، کیمیا ہمِیں سے ہوئی

Tuesday 23 December 2014

کبھی ہم شعر کہتے تھے

کبھی ہم شعر کہتے تھے

کبھی ہم شعر کہتے تھے
ہمارے خون کا ایک ایک قطرہ لفظ بنتا تھا
کوئی آری سی چلتی تھی
جو دل کو چیر دیتی تھی
ہم اپنے جسم سے باہر نکل جاتے تھے خود سے خوف کھاتے تھے

مری اونچ نیچ سے آشنا نہیں ہو سکی

مِری اونچ نیچ سے آشنا نہیں ہو سکی
وہ حسیں ڈگر مِرا راستہ نہیں ہو سکی
لب و حرف سے مِرا اعتبار ہی اٹھ گیا
تِرے بعد مجھ سے کوئی دعا نہیں ہو سکی
مِرا اشک چشمۂ چشم میں کہیں گُھل گیا
کوئی روشنی تھی مگر دِیا نہیں ہو سکی

Monday 22 December 2014

ملحد تو یہ کہتا ہے، خدا کوئی نہیں ہے

ملحد تو یہ کہتا ہے، خدا کوئی نہیں ہے
صوفی کو گماں ہے، وہ سرِ عرشِ بریں ہے
میں نے بھی خدا کو نہیں دیکھا ہے قسم سے
مجھ کو تو فقط اپنے ہی ہونے کا یقیں ہے
بزمِ مہ و انجم میں کسے ڈھونڈ رہا ہوں
کیا شب کے ستاروں میں کوئی زہرہ جبیں ہے

ایسے ہونٹوں پہ مرے نام ترا رہتا ہے

ایسے ہونٹوں پہ مِرے، نام تِرا رہتا ہے
جیسے تسبیح کے دانوں پہ خدا رہتا ہے
تُو نے اور میں نے، خدا دیکھا نہیں ہے پھر بھی
مجھ کو توحید کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے
دے جا مولا، کی صدا آتی ہے دیواروں سے
جیسے اس شہر کے ہر گھر میں گدا رہتا ہے

خدا تو ایک حقیقت ہے، تو ہے افسانہ

خدا تو ایک حقیقت ہے، تُو ہے افسانہ
فلک ہے بزمِ محبت، زمین ویرانہ
عجیب غمزہ گری ہے پری وشوں کے یہاں
کہ جس سے آنکھ لڑانا، اسی سے شرمانا
نہ دردِ عشق، نہ ہجر و فراق کی راتیں
نہ شمعِ دار، نہ منصور سا وہ پروانہ

تعلقات بھی رکھے نہیں گئے مجھ سے

تعلقات بھی رکھے نہیں گئے مجھ سے 
برہنہ راز تھے، ڈھانپے نہیں گئے مجھ سے
جو اشک تیری جدائی سے کر لیے منسوب
وہ بھر کے آنکھ میں لائے نہیں گئے مجھ سے
نہ جانے لکھا ہو کیا ان میں، اس تذبذب میں
تمہارے خط بھی تو کھولے نہیں گئے مجھ سے

Friday 19 December 2014

دل کتنا آباد ہوا جب دید کے گھر برباد ہوئے

دل کتنا آباد ہوا، جب دید کے گھر برباد ہوئے
وہ بچھڑا اور دھیان میں اس کے سو موسم ایجاد ہوئے
ناموری کی بات دِگر ہے ورنہ یارو! سوچو تو
گلگوں اب تک کتنے تیشے بے خونِ فرہاد ہوئے
لائیں کہاں سے بول رسیلے ہونٹوں کی ناداری میں
سمجھو، ایک زمانہ گزرا بوسوں کی امداد ہوئے

ہیں موسم رنگ کے کتنے گنوائے میں نہیں گنتا

ہیں موسم رنگ کے کتنے گنوائے، میں نہیں گِنتا
ہوئے کتنے دن اس کوچے سے آئی، میں نہیں گِنتا
بھلا خود میں کب اپنا ہوں، سو پھر اپنا پرایا کیا
ہیں کتنے اپنے اور کتنے پرائے میں نہیں گِنتا
لبوں کے بیچ تھا ہر سانس اک گنتی بچھڑنے کی
مرے وہ لاکھ بوسے لے کے جائے میں نہیں گِنتا

مجھ کو شب وجود میں تابش خواب چاہیے

مجھ کو شبِ وجود میں تابشِ خواب چاہیے
شوقِ خیال تازہ ہے، یعنی عذاب چاہیے
آج شکستِ ذات کی شام ہے، مجھ کو آج شام
صرف شراب چاہیے، صرف شراب چاہیے
کچھ بھی نہیں ہے ذہن میں کچھ بھی نہیں سو اب مجھے
کوئی سوال چاہیے، کوئی جواب چاہیے

وہ اہل حال جو خود رفتگی میں آئے تھے

وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے
بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے
کہاں گئے کبھی ان کی خبر تو لے ظالم
وہ بے خبر جو تیری زندگی میں آئے تھے
گلی میں اپنی گِلہ کر ہمارے آنے کا
کہ ہم خوشی میں نہیں سرخوشی میں آئے تھے

دل جو اک جائے تھی دنیا ہوئی آباد اس میں

دل جو اک جائے تھی دنیا ہوئی آباد اس میں
پہلے سنتے ہیں کہ رہتی تھی کوئی یاد اس میں
وہ جو تھا اپنا گمان آج بہت یاد آیا
تھی عجب راحتِ آزادئ ایجاد اس میں
ایک ہی تو وہ مہم تھی جسے سر کرنا تھا
مجھے حاصل نہ کسی کی ہوئی امداد اس میں

گہ آئینہ ہوا گہ دیدہ پر آب گھٹا

گِہ آئینہ ہوا،۔ گِہ دیدۂ پُر آب گھٹا
کبھی بڑھا کبھی دریائے اضطراب گھٹا
عزیز آئے نہ رونے کو میری تُربت پر
بہا کے اشک ہوئی داخلِ ثواب گھٹا
تمہاری زُلف نہ گردابِ ناف تک پہنچی
ہوئی نہ چشمۂ حیواں سے فیض یاب گھٹا

اے صبا جذب پہ جس دم دل ناشاد آیا

اے صبا جذب پہ جس دم دلِ ناشاد آیا
اپنی آغوش میں اڑ کر وہ پری زاد آیا
چشمِ موسیٰ ہمہ تن بن گیا میں حیرت سے
دیکھا اک بت کا وہ عالم کہ خدا یاد آیا
عاشقوں سے نہ رہا کوئی زمانہ خالی
کبھی وامق، کبھی مجنوں، کبھی فرہاد آیا

ہوائے یار میں کیا دل کو اضطراب رہا

ہوائے یار میں کیا دل کو اضطراب رہا
چکور چاند کی خاطر بہت خراب رہا
ہمیشہ کوششِ دنیا میں اضطراب رہا
بہت خراب دلِ خانماں خراب رہا
نہ برشگال میں جب تک شراب پلوا لی
بلا کی طرح سے سر پر مِرے سحاب رہا

نہ جانے رات کو تھا کون زینت پہلو

نہ جانے رات کو تھا کون زینتِ پہلُو 
مچل رہی تھی ہوا میں شراب کی خُوشبُو
حریم صلح میں قائم تھا ایک مرکز پر
مزاجِ عشق و تقاضائے حسنِ عربدہ جُو
وفا کی انجمن شوق میں تھی شِیر و شکر
جراحتِ دل صد چاک و تیغِ صاعقہ خُو

تلاشی: جس سے ارمانوں میں بجلی آگ طوفانوں میں ہے

تلاشی

جس سے ارمانوں میں بجلی آگ طوفانوں میں ہے
اے حکومت! کیا وہ شے ان میز کے خانوں میں ہے
بند پانی میں سفینہ کھے رہی ہے کس لیے
تُو مرے گھر کی تلاشی لے رہی ہے کس لیے
گھر میں درویشوں کے کیا رکھا ہے بدنہاد
آ، میرے دل کی تلاشی لے کہ بر آئے مراد

حیرت ہے آہ صبح کو ساری فضا سنے

حیرت ہے، آہِ صبح کو ساری فضا سنے
لیکن زمیں پہ بت، نہ فلک پر خدا سنے
فریادِ عندلیب سے کانپے تمام باغ
لیکن نہ گل، نہ غنچہ، نہ بادِ صبا سنے
خود اپنی ہی صداؤں سے گونجے ہوئے ہیں کان
کوئی کسی کی بات سنے بھی تو کیا سنے

اے دل جنون عشق کے ساماں کو کیا ہوا

اے دل! جنونِ عشق کے ساماں کو کیا ہوا
ہوتا نہیں ہے چاک، گریباں کو کیا ہوا
فکرِ سخن کا نور کہاں جا کے چھپ گیا
تخیّل کے تبسّمِ پنہاں کو کیا ہوا
رسمِ وفا کی کاہشِ پیہم کدھر گئی
ذوقِ نظر کی کاوشِ پنہاں کو کیا ہوا

کل فکر یہ تھی کشورِ اسرار کہاں ہے

کل فکر یہ تھی کشورِ اسرار کہاں ہے
اب ڈھونڈ رہا ہوں کہ درِ یار کہاں ہے
پھر حُسن کے بازار میں بِکنے کو چلا ہوں
اے جنسِ تدبر کے خریدار! کہاں ہے
پھر روگ لگایا ہے مرے دل کو کسی نے
اے چارہ گرِ خاطرِ بیمار! کہاں ہے

صبا جانا ادھر تو دردِ دل کا ماجرا کہنا

صبا جانا ادھر تو دردِ دل کا ماجرا کہنا
بہ نرمی بارگاہِ شاہ میں حالِ گدا کہنا
ادب سے پیش آنا، گفتگو کرنا مروت سے
مگر دل کا جو عالم ہو رہا ہے، برملا کہنا
وہاں پانا جو شغلِ ہاؤ ہو، تو میری جانب سے
مغاں سے بندگی کہنا، مغنّی سے دعا کہنا

نقشِ خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز

نقشِ خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز
تیری ہی زلفِ ناز کا اب تک اسیر ہوں
یعنی کسی کے دامِ میں آیا نہیں ہنوز
یادش بخیر جس پہ کبھی تھی تری نظر
وہ دل کسی سے میں نے لگایا نہیں ہنوز

Thursday 18 December 2014

خدا کی نظروں سے گر گئے جو

خدا کی نظروں سے گر گئے جو

مِرے وطن
میری بے بس اداس دھرتی
مِرے پشاور کے نونہال آج
اپنی ماؤں کی گود کو چھوڑ
تیری گودی میں چھپ گئے ہیں
وہ ڈر گئے ہیں

لفظ تو بانجھ ہیں

لفظ تو بانجھ ہیں

لفظ تو بانجھ ہیں جذبوں کی قدر کیا جانیں
زندگی ہار چکی ہو وہ نظرکیا جانیں
اپنے معصوم گلابوں سے حسیں بچوں کی
ایک کھوئی ہوئی مسکان پہ کچھ لکھنا ہے
ان کی بے جان نگاہوں پہ مجھے کہنا ہے
لفظ تو بانجھ ہیں قرطاس کے آئینے میں

Tuesday 16 December 2014

مہک رہے ہیں جو یہ پھول لب بہ لب مری جاں

مہک رہے ہیں جو یہ پھول لب بہ لب مِری جاں
جو تم نہیں ہو تو پھر کون ہے سبب مِری جاں
اداسیوں بھری شامیں جہاں سے آتی ہیں
وہیں سے آئی ہے یہ ساعتِ طرب مِری جاں
مِری کتابیں، مِری خوشبوئیں، مِری آنکھیں
تمہارے ہجر میں جاگے ہیں سب کے سب مِری جاں

جو اسم و جسم کو باہم نبھانے والا نہیں

جو اسم و جسم کو باہم نبھانے والا نہیں
میں ایسے عشق پہ ایمان لانے والا نہیں
میں پاؤں دھو کے پیوں یار بن کے جو آئے
منافقوں کو تو میں منہ لگانے والا نہیں
نزول کر میر ے سینے پہ اے جمالِ شدید
تیری قسم میں تیرا خوف کھانے والا نہیں

مرتی ہوئی تہذیب بھی اور اس کے نشاں بھی

مرتی ہوئی تہذیب بھی اور اس کے نشاں بھی
صدیوں سے یہاں ہم بھی ہیں یہ خستہ مکاں بھی
انجان زمانوں کی روایت بھی سفر میں
ہمراہ مِرے ہے خس و خاشاک و جہاں بھی
اس ہجر سے کیا جان چھڑاؤں کہ یہ ڈر ہے
آسیب تو جاتے ہوئے چھوڑے گا نشاں بھی

مجھے یقیں ہے عدو کی مچان ٹوٹے گی

مجھے یقیں ہے عدو کی مچان ٹوٹے گی
مچان بچ بھی گئی تو کمان ٹوٹے گی
کہا نہیں تھا، کہ آخر کو تھک کے گِرنا ہے
کہا نہیں تھا کہ اونچی اڑان ٹوٹے گی
یہ موجِ نغمۂ ہستی اٹھے کہ نیچی رہے
مگر یہ طے ہے کہ آخر یہ تان ٹوٹے گی

رکھ رکھاؤ میں کوئی خوار نہیں ہوتا یار

رکھ رکھاؤ میں کوئی خوار نہیں ہوتا یار
دوست ہوتے ہیں، ہر اک یار نہیں ہوتا یار
دو گھڑی بیٹھو مرے پاس، کہو کیسی ہو
دو گھڑی بیٹھنے سے پیار نہیں ہوتا یار
یار! یہ ہجر کا غم، اس سے تو موت اچھی ہے
جاں سے یوں ہی کوئی بے زار نہیں ہوتا یار

محبت ناسمجھ ہوتی ہے سمجھانا ضروری ہے

محبت ناسمجھ ہوتی ہے سمجھانا ضروری ہے
جو دل میں ہے اسے آنکھوں سے کہلانا ضروری ہے
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہوں تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
نئی عمروں کی خود مختاریوں کو کون سمجھائے
کہاں سے بچ کر چلنا ہے کہاں جانا ضروری ہے

کچھ اس طرح وہ مری زندگی میں آیا تھا

کچھ اس طرح وہ میری زندگی میں آیا تھا
کہ میرا ہوتے ہوئے بھی، بس ایک سایا تھا
ہوا میں اڑنے کی دُھن نے یہ دن دِکھایا تھا
اڑان میری تھی، لیکن سفر پرایا تھا
یہ کون راہ دِکھا کر چلا گیا مجھ کو
میں زندگی میں بھلا کِس کے کام آیا تھا

دیوں کا قد گھٹانے کے لیے راتیں بڑی کرنا

دیؤں کا قد گھٹانے کے لیے راتیں بڑی کرنا
بڑے شہروں میں رہنا ہے تو باتیں بڑی کرنا
یہ کیا جانے یہ دل کچی زمیں کا استعارہ ہے
ان آنکھوں کو تو بس آتا ہے برساتیں بڑی کرنا
محبت میں بچھڑنے کا ہنر سب کو نہیں آتا
کسی کو چھوڑنا ہو تو ملاقاتیں بڑی کرنا

وسیم بریلوی

Sunday 14 December 2014

سندر کومل سپنوں کی بارات گزر گئی جاناں

سندر، کومل سپنوں کی بارات گزر گئی جاناں
دھوپ آنکھوں تک آ پہنچی ہے رات گزر گئی جاناں
بھور سمے تک جس نے ہمیں باہم الجھائے رکھا
وہ البیلی ریشم ایسی بات گزر گئی جاناں
سدا کی دیکھی رات ہمیں اس بار ملی تو چپکے سے
خالی ہاتھ پہ رکھ کے کیا سوغات گزر گئی جاناں

اس بھرے شہر میں میری طرح رسوا ہوتا

اس بھرے شہر میں میری طرح رسوا ہوتا
تجھ پہ حادثۂ شوق جو گزرا ہوتا
تُو نے ہر چند زباں پر تو بٹھائے پہرے
بات جب تھی کہ مِری سوچ کو بدلا ہوتا
رکھ لیا غم بھی تِرا بارِ امانت کی طرح
کون اس شہر کے بازار میں رسوا ہوتا

دل سوزی: یہ عشق پیچاں کے پھول پتے جو فرش پر

دل سوزی

یہ عشق پیچاں کے پھول پتے جو فرش پر یوں بکھر رہے ہیں
یہ مجھ کو تکلیف دے رہے ہیں، یہ مجھ کو غمگین کر رہے ہیں
انہیں یہاں سے اٹھا کے اک بار پھر اسی بیل پر لگا دو
وگرنہ، مجھ کو بھی ان کے مانند خواب کی گود میں سلا دو
خزاں زدہ اک شجر ہے، اس پر ضیائے مہتاب کھیلتی ہے
اور اس کی بے رنگ ٹہنیوں کو وہ اپنے طوفاں میں ریلتی ہے

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اک شرحِ حیات ہو گئی ہے
جب دل کی وفات ہو گئی ہے
ہر چیز کی رات ہو گئی ہے
غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے

رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا

رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا
کروٹیں لیتی ہوئی صبحِ چمن کیا کہنا
باغِ جنت میں گھٹا جیسے برس کے کھل جائے
سوندھی سوندھی تیری خوشبوئے بدن کیا کہنا
جیسے لہرائے کوئی شعلہ کمر کی لچک
سر بہ سر آتشِ سیال بدن کیا کہنا

یہ ہے میکدہ یہاں رند ہيں یہاں سب کا ساقی امام ہے

یہ ہے مے کدہ یہاں رِند ہيں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شيخ جی! یہاں پارسائی حرام ہے
جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے مے کدے سے نکال دو
یہاں تنگ نظر کا گزر نہیں، یہاں اہلِ ظرف کا کام ہے
کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے
مگر اس پہ کوئی کرے بھی کیا یہ تو مے کدے کا نظام ہے

کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی

کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اف کر کے وہیں بیٹھ گیا دردِ جگر بھی
کیا دیکھیں گے ہم جلوۂ محبوب کہ ہم سے
دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی
واعظ! نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی

جس کو لینے تاجروں کا دستہ نکلا

جس کو لینے تاجروں کا دستہ نکلا
بِکنے آیا تو توقع سے بھی سستا نکلا
اپنے سینے میں چھپائے ہوئے تیری یادیں
ہم پہ ہر شخص آوازیں کستا نکلا
ہم نے ہر بات بہت سوچ سمجھ کر کی ہے
بس اِک لفظِ محبت تھا، جو برجستہ نکلا

اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو

اے میرے سارے لوگو

اب مِرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے مِری سمت کہ جو
اس سے پہلے مِری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی
پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مِرے شہر میں بارُود کی بُو پھیلی ہے

مرا ملک ملک یتیم ہے

مِرا ملک، ملکِ یتیم ہے
مِرا دیس میرِ سپاہ کا
مِرا شہر مال غنِیم ہے
یہاں سب کے نِرخ جدا جدا
اسے مول لو، اسے تول دو
جو طلب کرے کوئی خوں بہا
تو دَهن خزانے کا کهول دو

ہٹ گئے دل سے تیرگی کے حجاب

ہٹ گئے دل سے تیرگی کے حجاب
آفریں، اے نگاہِ عالم تاب
آڑے آیا نہ کوئی مشکل میں
مشورے دے کے ہٹ گئے احباب
کیا قیامت تھی صبر کی تلقین
اور بھی رُوح ہو گئی بے تاب

اگر انسان ہوں، دنیا کو حیراں کر کے چھوڑوں گا

اگر انسان ہوں، دنیا کو حیراں کر کے چھوڑوں گا
میں ہر ناچیز ذرّے کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا
تری اِس الفت کی سوگند، اے لیلائے رنگینی
کہ ارضِ خار و خس کو سُنبلستاں کر کے چھوڑوں گا
وہ پنہاں قوتیں جو مِل کے زِک دیتی ہیں دنیا کو
انہیں آپس ہی میں دست و گریباں کر کے چھوڑوں گا

وہ یار پری چہرہ کہ کل شب کو سدھارا

وہ یارِ پری چہرہ کہ کل شب کو سدھارا
طوفاں تھا، تلاطم تھا، چھلاوا تھا، شرارا
گل بیز و گہر ریز و گہر بار و گہر تاب
کلیوں نے جسے رنگ دیا، گل نے سنوارا
نوخواستہ و نورس و نوطلعت و نوخیز
وہ نقش جسے خود یدِ قدرت نے ابھارا

عشق میں معرکے بلا کے رہے

عشق میں معرکے بلا کے رہے 
آخرش ہم شکست کھا کے رہے 
یہ الگ بات ہے کہ ہارے ہم
حشر اک بار تو اٹھا کے رہے 
سفرِ غم کی بات جب بھی چلی
تذکرے تیرے نقشِ پا کے رہے 

خود کو پانے کی طلب میں آرزو اس کی بھی تھی

خود کو پانے کی طلب میں آرزو اس کی بھی تھی
میں جو مل جاتا تو اس میں آبرو اس کی بھی تھی
زندگی اک دوسرے کو ڈھونڈنے میں کٹ گئی
جستجو میری بھی دشمن تھی، عدو اس کی بھی تھی
میری باتوں میں بھی تلخی تھی سمِ تنہائی کی
زہر شہنائی میں ڈوبی گفتگو اس کی بھی تھی

ہر گھڑی قیامت تھی یہ نہ پوچھ کب گزری

ہر گھڑی قیامت تھی یہ نہ پوچھ کب گزری
بس یہی غنیمت ہے، تیرے بعد شب گزری
کنجِ غم میں اِک گُل بھی کِھل نہیں سکا پورا
اس بلا کی تیزی سے صرصرِ طرب گزری
تیرے غم کی خوشبو سے جسم و جاں مہک اٹھے
سانس کی ہوا جب بھی چُھو کے میرے لب گزری

آدمی آدمی سے ملتا ہے

آدمی، آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

یہ ترا جمال کاکل یہ شباب کا زمانہ

یہ تِرا جمالِ کاکُل یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ
میری زندگی تو گزری تِرے ہجر کے سہارے
میری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق تجھ میں مجھ میں
تِرا درد ، دردِ تنہا، مِرا غم ، غمِ زمانہ

بخشش ہوا یقین گماں بے لباس ہے

بخشش ہوا یقین گماں بے لباس ہے
ہے آگ جامہ زیب دھواں بے لباس ہے
ہے یہ فضا ہزار لباسوں کا اک لباس
جو بے لباس ہے وہ کہاں بے لباس ہے
ملبوس تار تارِ نفس ہے زیانِ سود
سُودِ زیان یہ ہے کہ زیاں بے لباس ہے

کون سے شوق کس ہوس کا نہیں

کون سے شوق کِس ہوس کا نہیں
دل میری جان! تیرے بس کا نہیں
راہ تم کارواں کی لو، کہ مجھے
شوق کچھ نغمۂ جرس کا نہیں
ہاں میرا وہ معاملہ ہے، کہ اب
کام یارانِ نکتہ رَس کا نہیں

شہر بہ شہر کر سفر زاد سفر لیے بغیر

شہر بہ شہر کر سفر زادِ سفر لیے بغیر
کوئی اثر کیے بغیر کوئی اثر لیے بغیر
کوہ و کمر میں ہم صفیر کچھ نہیں اب بجز ہوا
دیکھیو پلٹیو نہ آج شہر سے پَر لیے بغیر
وقت کے معرکے میں تھیں مجھ کو رعایتیں ہوس
میں سرِ معرکہ گیا اپنی سِپر لیے بغیر

وہ خیال محال کس کا تھا

وہ خیالِ مُحال کِس کا تھا
آئینہ بے مثال کس کا تھا
سفری اپنے آپ سے تھا میں
ہجر کس کا، وصال کس کا تھا
میں تو خود میں کہیں نہ تھا موجود
میرے لب پر سوال کس کا تھا

یاد اسے انتہائی کرتے ہیں

یاد اسے انتہائی کرتے ہیں
سو ہم اس کی برائی کرتے ہیں
پسند آتا ہے دل سے یوسفؑ کو
وہ جو یوسفؑ کے بھائی کرتے ہیں
ہے بدن خوابِ وصل کا دنگل
آؤ، زور آزمائی کرتے ہیں

سر پر اک سچ مچ کی تلوار آئے تو

سر پر اک سچ مچ کی تلوار آئے تو
کوئی قاتل برسرِ کار آئے تو
سرخ رو ہو جاؤں میں تو یار ابھی
دل سلیقے سے سرِ دار آئے تو
وقت سے اب اور کیا رشتہ کریں
جانِ جاناں ہم تجھے ہار آئے تو

حواس میں تو نہ تھے پھر بھی کیا نہ کر آئے

حواس میں تو نہ تھے پھر بھی کیا نہ کر آئے
کہ دار پر گئے ہم، اور پھر اُتر آئے
عجیب حال کے مجنوں تھے جو بہ عشوہ و ناز
بہ سُوئے بادیہ محمل میں بیٹھ کر آئے
کبھی گئے تھے میاں! جو خبر کو صحرا کی
وہ آئے بھی تو بگولوں کے ساتھ گھر آئے

گزراں ہے گزرتے رہتے ہیں

گزراں ہے گزرتے رہتے ہیں
ہم میاں جان مرتے رہتے ہیں
ہائے جاناں وہ ناف پیالہ ترا
دل میں بس گھونٹ اترتے رہتے ہیں
دل کا جلسہ بکھر گیا تو کیا
سارے جلسے بکھرتے رہتے ہیں

اپنی منزل کا راستہ بھیجو

اپنی منزل کا راستہ بھیجو
جان! ہم کو وہاں بلا بھیجو
کیا ہمارا نہیں رہا ساون
زُلف! یاں بھی کوئی گھٹا بھیجو
نئی کلیاں جو اب کھِلی ہیں وہاں
ان کی خوشبو کو اک ذرا بھیجو

کب اس کا وصال چاہئے تھا

کب اس کا وصال چاہیے تھا
بس ایک خیال چاہیے تھا
کب دل کو جواب سے غرض تھی
ہونٹوں کو سوال چاہیے تھا
شوق ایک نفس تھا اور وفا کو
پاسِ مہ و سال چاہیے تھا

عجب اک طور جو ہم ایجاد رکھیں

عجب اِک طور جو ہم ایجاد رکھیں
کہ نہ اس شخص کو بھولیں ناں اس کو یاد رکھیں
عہد اس کُوچۂ دل سے ہے سو اس کوچہ میں
ہے کوئی اپنی جگہ ہم جسے برباد رکھیں
کیا کہیں کتنے نُقطے ہیں جو برتے نہ گئے
خوش بدن عشق کریں اور ہم استاد رکھیں

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا

مِرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
گِرا دیا ہے تو ساحل پہ انتظار نہ کر
اگر وہ ڈوب گیا ہے تو دور نکلے گا
اسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف
ہمیں یقین تھا، ہمارا قصور نکلے گا

آج کی رات بھی گزری ہے مری کل کی طرح

آج کی رات بھی گزری ہے مِری کل کی طرح
ہاتھ آئے نہ ستارے تِرے آنچل کی طرح
حادثہ کوئی تو گزرا ہے یقیناً یارو
ایک سناٹا ہے مجھ میں کسی مقتل کی طرح
پھر نہ نکلا کوئی گھر سے کہ ہوا پھرتی تھی
سنگ ہاتھوں میں اٹھائے کسی پاگل کی طرح

کس عالم وحشت میں سکوں ڈھونڈ رہے ہیں

کس عالمِ وحشت میں سکوں ڈھونڈ رہے ہیں
کیا اہلِ خِرد کیفِ جنوں ڈھونڈ رہے ہیں
قاتل بھی ہے، خنجر بھی ہے موجود، مگر لوگ
مقتول ہی کے ہاتھ پہ خوں ڈھونڈ رہے ہیں
اے ظرفِ تنک مایۂ دنیائے دَنی، ہم
ظرف اب کوئی وسعت میں فزوں ڈھونڈ رہے ہیں

کلی کے بس میں نہ کچھ گل کے اختیار میں ہے

کلی کے بس میں نہ کچھ گُل کے اختیار میں ہے
یہ حُسنِ کُل کی جھلک حُسنِ مستعار میں ہے
لب و زباں کی، فقط لرزشوں میں، لطف کہاں
مزہ، جو رُوح صدا دے، تو ایک بار میں‌ہے
ہوا کے دوش پہ مرکز کی سمت خاک چلی
تڑپ جو دل میں تھی میرے، وہی غبار میں ہے

جنون شوق اب بھی کم نہیں ہے

جنونِ شوق اب بھی کم نہیں ہے
مگر یہ آج بھی برہم نہیں ہے
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تِری زُلفوں کا پیچ وخم نہیں ہے
بہت کچھ اوربھی ہے اس جہاں میں
یہ دنیا محض غم ہی غم نہیں ہے

شکوهٔ مختصر مجھے شکوہ نہیں دنیا کی ان زہرہ جبینوں سے

شکوهٔ مختصر

مجھے شکوہ نہیں دنیا کی اُن زہرہ جبینوں سے
ہوئی جن سے نہ میرے شوقِ رُسوا کی پزیرائی
مجھے شکوہ نہیں اُن پاک باطن نُکتہ چینوں سے
لبِ معجز نُما نے جن کے، مجھ پر آگ برسائی
مجھے شکوہ نہیں تہذیب کے اُن پاسبانوں سے
نہ لینے دی جنہوں نے فطرتِ شاعر کو انگڑائی

طفلی کے خواب: طفلی میں آرزو تھی کسی دل میں ہم بھی ہوں

طفلی کے خواب

طفلی میں آرزو تھی کسی دل میں ہم بھی ہوں
اک روز سوز و ساز کی محفل میں ہم بھی ہوں
دل ہو اسیر گیسوئے عنبر سرشت میں
الجھے انہیں حسین سلاسل میں ہم بھی ہوں
چھیڑا ہے ساز حضرتِ سعدی نے جس جگہ
اس بوستاں کے شوخ عنادل میں ہم بھی ہوں

اب میرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو

اب میرے پاس تم آئی ہو، تو کیا آئی ہو

میں نے مانا کہ تم اک پیکرِ رعنائی ہو
 چمنِ  دہر میں روحِ چمن آرائی ہو
 طلعتِ  مہر ہو، فردوس کی برنائی ہو
بنتِ مہتاب ہو، گردُوں سے اتر آئی ہو
مجھ سے ملنے میں اب اندیشۂ رسوائی ہے
 میں نے خود اپنے کئے کی یہ سزا پائی ہے

Saturday 13 December 2014

کتبہ: زرد پتوں کے ڈھیر کی تہ میں

کتبہ 

زرد پتوں کے ڈھیر کی تہ میں
میلے کاغذ چھپا گیا کوئی
جن پہ تازہ لہو سے لکھا تھا
روٹھ کر اس طرح نہ کرنا تھا
ہم کو اک ساتھ جینا مرنا تھا
جان من! تم نے بے وفائی کی

مری سانسوں کی خوشبو سے تجھے زنجیر ہونا ہے

مری سانسوں کی خوشبو سے تجھے زنجیر ہونا ہے
ابھی اس خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونا ہے
یہ کہہ کر اپنی محرومی کو بہلاتا ہے دل اپنا
اگر وہ چاند ہے تو پھر اسے تسخیر ہونا ہے
مرے لفظوں کی لغزش کہہ رہی تھی آج محفل میں
کہ تیری خامشی کو حاصلِ تقریر ہونا ہے

طلب کو اجر نہ دوں فکرِ رہگزر نہ کروں

طلب کو اجر نہ دوں فکرِ رہگزر نہ کروں
سفر میں اب کے ہوا کو بھی ہمسفر نہ کروں
ابھرتے ڈوبتے سورج سے توڑ لوں رشتہ
میں شام اوڑھ کے سو جاؤں اور سحر نہ کروں
اب اس بڑھ کے بھلا کیا ہو احتیاطِ وفا
میں تیرے شہر سے گزروں تجھے خبر نہ کروں

وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی

وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی
کون سنتا ہے بھلا رام کہانی اپنی
ہر ستمگر کو یہ ہمدرد سمجھ لیتی ہے
کتنی خوش فہم ہے کمبخت جوانی اپنی
روز ملتے ہیں دریچے میں نئے پھول کھلے
چھوڑ جاتا ہے کوئی روز نشانی اپنی

لہرائے سدا آنکھ میں پیارے تیرا آنچل

لہرائے سدا آنکھ میں پیارے تیرا آنچل 
جھومر ہے تیرا چاند، ستارے تیرا آنچل 
اب تک میری یادوں میں ہے رنگوں کا تلاطم 
دیکھا تھا کبھی جھیل کنارے تیرا آنچل 
لپٹے کبھی شانوں سے، کبھی زلف سے الجھے 
کیوں ڈھونڈھتا رہتا ہے سہارے تیرا آنچل 

سکھ کا موسم خیال و خواب ہوا

سُکھ کا موسم خیال و خواب ہوا
سانس لینا بھی اب عذاب ہوا
آنکھوں آنکھوں پڑھا کرو جذبے
چہرہ چہرہ کھلی کتاب ہوا
روشنی اس کے عکس کی دیکھو
آئینہ، شب کو آفتاب ہوا

اب کے یوں بھی تیری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے

اب کے یوں بھی تیری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے
رنگ پھوٹے، کہیں‌ خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے
موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے
دل شکستہ تو کئی بار ہوئے تھے، لیکن
اب کے یوں ہے کہ ہر شاخِ بدن ٹوٹی ہے

چاہیے دنیا سے ہٹ کر سوچنا

چاہیے دنیا سے ہٹ کر سوچنا 
دیکھنا صحرا، سمندر سوچنا 
مار ڈالے گا ہمیں اس شہر میں 
گھر کی تنہائی پہ اکثر سوچنا 
دشمنی کرنا ہے اپنے آپ سے 
آئینہ خانے میں پتھر سوچنا 

کبھی کبھی تو ترے دکھ کے زرد پتوں کو

کبھی کبھی تو ترے دکھ کے زرد پتوں کو 
صبا کی گود میں خوشبو نے لوریاں دی ہیں
کبھی کبھی تو مجھے تو نے سانس لینے کو 
خود اپنی سانس کے ریشم کی ڈوریاں دی ہیں
وہ دوپہر کا مسافر کہاں گیا، جس نے 
ہمارے ہاتھ میں آنکھوں کی چوریاں دی ہیں

بچھڑ کے تجھ سے یہ سوچوں کہ دل جہاں جائے

بچھڑ کے تجھ سے یہ سوچوں کہ دل جہاں جائے 
سحر اداس کرے، شام رائیگاں جائے 
زمیں بدر جو ہوئے ہو تو میرے ہمسفرو 
چلے چلو کہ جہاں تک یہ آسماں جائے 
بچھڑ چلا ہے تو میری دعا بھی لیتا جا
وہاں وہاں مجھے پائے، جہاں جہاں جائے 

لہو سے دل کبھی چہرے اجالنے کے لئے

لہو سے دل کبھی چہرے اجالنے کے لئے
میں جی رہا ہوں اندھیروں کو ٹالنے کےلئے
اتر پڑے ہیں پرندوں کے غول ساحل پر
سفر کا بوجھ سمندر میں ڈالنے کےلئے
سخن لباس پہ ٹھہرا، تو جوگیوں نے کہا
کہ آستیں ہے فقط سانپ پالنے کےلئے

Friday 12 December 2014

تجھ میں اور مجھ میں وہ اب رازو نیاز آئے کہاں

تجھ میں اور مجھ میں وہ اب رازو نیاز آئے کہاں
اب میسر دھوپ میں ہیں زلف کے سائے کہاں
جانے والے سوچ کر جانا کہ بے حد شوخ ہے
کیا پتہ ہے ایسے دل کا کس پہ آ جائے کہاں
تیرے میرے گھر میں جو دیوار حائل ہو گئی
تیشۂ پُرزور کو مشکل ہے کہ ڈھائے کہاں

مجھے ناشاد کر دے، اے مرے دل

مجھے ناشاد کر دے، اے مِرے دل
مِرے استاد! کر دے، اے مِرے دل
لو پھر سے غم مجھے کم پڑ گئے ہیں
یہ لاتعداد کر دے، اے مرے دل
جو تجھ میں خوف بچے دے رہا ہے
وہ بے اولاد کر دے، اے مرے دل

دنیا نہ کرے پیار کرے پیار مجھے کیا

دنیا نہ کرے پیار، کرے پیار، مجھے کیا
جب تم نہ رہے یار، مِرے یار، مجھے کیا
اے تیر نظر! آزما اس دل کی فراخی
اب تُو رہے اِس پار یا اُس پار مجھے کیا
میں زندگی سے کھیل کے نکلا ہوں، پرے ہٹ
اے موت! مجھے چھوڑ، مجھے مار، مجھے کیا

کسی چمن میں رہو تم بہار بن کے رہو

فلمی نغمہ

کسی چمن میں رہو تم، بہار بن کے رہو
خدا کرے، کسی دل کا قرار بن کے رہو
ہم اپنے پیار کو دل سے لگا کے جی لیں گے
یہ زہر تم نے دیا ہے، تو ہنس کے پی لیں گے
زمانہ دے ناں تمہیں، بے وفائی کا الزام
زمانے بھر میں وفا کا وقار بن کے رہو

آج اے دل لب و رخسار کی باتیں ہی سہی

آج اے دل! لب و رخسار کی باتیں ہی سہی
وقت کٹ جائے گا کچھ پیار کی باتیں ہی سہی
یوں تو کٹتی ہی رہے گی غمِ دوراں میں حیات
آج کی رات غمِ یار کی باتیں ہی سہی
زندہ رہنے کی کبھی تو کوئی صورت نکلے
عشرتِ عالمِ دیدار کی باتیں ہی سہی

اک دلربا سے پیار کا قصہ تمام شد

اِک دِلربا سے پیار کا قصّہ تمام شُد
اس جیت اور ہار کا قصّہ تمام شُد
تجھ سے وفا کے بدلے میں تنہائیاں ملیں
اے دوست! تیرے یار کا قصّہ تمام شُد
پھولوں کے ارد گرد ہیں کانٹے نکل پڑے
گلرنگ پر نکھار کا قصّہ تمام شُد

کبھی ہم کو رلا ڈالا کبھی ہم کو ہنسا ڈالا

کبھی ہم کو رُلا ڈالا، کبھی ہم کو ہنسا ڈالا
خوشی اور غم کا جیون کھیل ہے جس نے تھکا ڈالا
نہیں آئی نظر مجھ کو تمہارے نام کی ریکھا
تو اپنی اس ہتھیلی کی لکیروں کو جلا ڈالا
جلائی شمع الفت کی جو تھی ہر ایک کے دل میں
تعصّب کی ہوا نے آج ہے اس کو بُجھا ڈالا

وقت ہر دہلیز کا جلتا دیا گل کر گیا

وقت ہر دہلیز کا جلتا دِیا گُل کر گیا
دَم نکل کر آدمی کی قید سے باہر گیا
عشق کا دعویٰ بہت آسان ہے، لیکن سنو
جس نے دعویٰ عشق کا سچا کیا تو سَر گیا
سوچتا ہوں میں سفر اپنا ادھورا چھوڑ دوں
ایک مدت سے نہیں لوگو! میں اپنے گھر گیا

برداشت: میٹھے لہجے میں لپٹی ہوئی نفرتیں

برداشت

 میٹھے لہجے میں لپٹی ہوئی نفرتیں
اتفاقاً نہیں یوں تجھے ہیں ملی
 تجھ سے ناراض ہوتے ہیں سب لوگ کیوں
 ہے کوئی تو وجہ، کوئی تو ہے کمی
 تُو مہذّب ہے، کہتا ہے سب سے یہی
 اور برداشت کی تجھ میں عادت نہیں

دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے

دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے
اس طرح ملیے کہ جزوِ زندگی بن جائیے
اک پتنگے نے یہ اپنے رقص کے آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے، روشنی بن جائیے
جس طرح دریا بجھا سکتا نہیں صحرا کی پیاس
اپنے اندر ایک ایسی تشنگی بن جائیے

جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا

جا کے پھر لوٹ جو آئے، وہ زمانہ کیسا
تیری آنکھوں نے یہ چھیڑا ہے فسانہ کیسا
آنکھ سرشارِ تمنا ہے، تُو وعدہ کر لے
چال کہتی ہے کہ اب لوٹ کے ‌آنا کیسا
مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہیں ہم
یوں نہ ملنے کا نکالا ہے بہانہ کیسا

چھاؤں محبت اک شجر ہے

چھاؤں

تمہیں کیسے بتائیں ہم
محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہانی میں
تو ہم واپس بھی آتے ہیں
محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
ذرا سوچو

Wednesday 10 December 2014

کیا جانیے ہر آن بدلتی ہوئی دنیا

کیا جانیے ہر آن بدلتی ہوئی دنیا
کب دل سے کوئی نقش مٹانے چلی آئے
در کھول کے اک تازہ تحیّر کی خبر کا
چپکے سے کسی غم کے بہانے چلی آئے
کہتے ہیں کہ اب بھی تری پھیلی ہوئی باہیں
اک گوشۂ تنہائی میں سِمٹی ہوئیں اب تک
زنجیرِ مہ و سال میں لِپٹی ہوئیں اب تک

نکل کے حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں

نکل کے حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں
زمیں کے ساتھ نہ مل جائیں یہ خلائیں کہیں
سفر کی رات ہے، پچھلی کہانیاں نہ کہو
رُتوں کے ساتھ پلٹتی ہیں کب ہوائیں کہیں
فضا میں تیرتے رہتے ہیں نقش سے کیا کیا
مجھے تلاش نہ کرتی ہوں یہ بلائیں کہیں

ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو

ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
خود سے مِلنے کی بھی مِلتی نہیں فرصت ہم کو
 روشنی کا یہ مسافر ہے رہِ جاں کا نہیں
اپنے سائے سے بھی ہونے لگی وحشت ہم کو
آنکھ اب کس سے تحیّر کا تماشا مانگے
اپنے ہونے پہ بھی ہوتی نہیں حیرت ہم کو

نہ ربط ہے نہ معانی کہیں تو کس سے کہیں

نہ ربط ہے نہ معانی کہیں تو کس سے کہیں
ہم اپنے غم کی کہانی کہیں تو کس سے کہیں
سِلیں ہیں برف کی سینوں میں اب دلوں کی جگہ
یہ سوزِ دردِ نہانی کہیں تو کس سے کہیں
نہیں ہے اہلِ جہاں کو خود اپنے غم سے فراغ
ہم اپنے دل کی گرانی کہیں تو کس سے کہیں

کہیں بے کنار سے رتجگے کہیں زرنگار سے خواب دے

کہیں بے کنار سے رتجگے، کہیں زرنگار سے خواب دے
تِرا کیا اصول ہے زندگی، مجھے کون اس کا حساب دے
جو بِچھا سکوں تِرے واسطے، جو سجا سکیں تِرے راستے
مِری دسترس میں ستارے رکھ، مِری مُٹھیوں کو گلاب دے
یہ جو خواہشوں کا پرند ہے، اسے موسموں سے غرض نہیں
یہ اڑے گا اپنی ہی موج میں، اسے آب دے کہ سراب دے

میرے سینے پر وہ سر رکھے ہوئے سوتا رہا

میرے سینے پر وہ سر رکھے ہوئے سوتا رہا 
جانے کیا تھی بات، میں جاگا کیا، روتا رہا 
شبنمی میں دھوپ کی جیسے وطن کا خواب تھا 
لوگ یہ سمجھے میں سبزے پر پڑا سوتا رہا
وادیوں میں گاہ شبنم اور کبھی خونناب سے 
ایک ہی تھا داغ سینے میں جسے دھوتا رہا

میرے بارے میں ہواؤں سے وہ کب پوچھے گا

میرے بارے میں ہواؤں سے وہ کب پوچھے گا
خاک جب خاک میں مِل جائے گی تب پوچھے گا
گھر بسانے میں یہ خطرہ ہے کہ گھر کا مالک
رات میں دیر سے آنے کا سبب پوچھے گا 
اپنا غم سب کو بتانا ہے تماشا کرنا
حالِ دل اس کو سنائیں گے وہ جب پوچھے گا

کبھی تو شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے

کبھی تو شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے
کسی کی آنکھ میں رہ کر سنور گئے ہوتے
سنگھار دان میں رہتے ہو آئینے کی طرح
کسی کے ہاتھ سے گر کر بِکھر گئے ہوتے
غزل نے بہتے ہوئے پھول چُن لئے، ورنہ
غموں میں ڈوب کر ہم مر گئے ہوتے

سورج بھی بندھا ہو گا دیکھ مرے بازو میں

سورج بھی بندھا ہو گا دیکھ مِرے بازُو میں
اس چاند کی بھی رکھنا سونے کے ترازُو میں
اب ہم سے شرافت کی امید نہ کر دنیا
پانی نہیں مل سکتا تپتی ہوئی بالُو میں
تاریک سمندر کے سینے میں گُہر ڈھونڈو
جگنو بھی چمکتے ہیں برسا ت کے آنسُو میں

چاند ہاتھ میں بھر کر جگنوؤں کے سر کاٹو اور آگ پر رکھ دو

چاند ہاتھ میں بھر کر جگنوؤں کے سر کاٹو اور آگ پر رکھ دو
قافلہ پرندوں کا جب زمیں پہ گر جائے چاقوؤں کے سر رکھ دو
میں بھی اک شجر ہی ہوں جس پہ آج تک شاید پُھول پَھل نہیں آئے
تم مِری ہتیلی پر ایک رات چپکے سے برف کا ثمر رکھ دو
دھوپ کا ہرا بجرا آگ کے سمندر میں چل پڑا ہمیں لینے
نرم و گرم ہونٹوں سے بند ہوتی تتلیوں کے پر رکھ دو

کہیں پنگھٹوں کی ڈگر نہیں، کہیں آنچلوں

کہیں پنگھٹوں کی ڈگر نہیں، کہیں آنچلوں کا نگر نہیں
یہ پہاڑ دھوپ کے پیڑ میں کہیں سایہ دار شجر نہیں
مجھے ایسی بات بتائیے جو کوئی سنے تو نئی لگے
کوئی شخص بھوک سے مر گیا یہ خبر تو کوئی خبر نہیں
تیرے نام سے میری راہ میں کوئی دکھ کے پھول بِچھا گیا
میں تیری زمین کا خواب ہوں مجھے آسمان کا ڈر نہیں

کہیں چاند راہوں میں کھو گیا کہیں چاندنی

کہیں چاند راہوں میں کھو گیا کہیں چاندنی بھی بھٹک گئی​
میں چراغ، وہ بھی بُجھا ہوا میری رات کیسے چمک گئی​
مِری داستاں کا عروج تھا تِری نرم پلکوں کی چھاؤں میں​
میرے ساتھ تھا تجھے جاگنا تِری آنکھ کیسے جھپک گئی​
بھلا ہم مِلے بھی تو کیا مِلے، وہی دوریاں وہی فاصلے​
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جِھجک گئی​

تو مجھ سے تیز چلے گا تو راستہ دوں گا

تُو مجھ سے تیز چلے گا تو راستہ دوں گا
دُعا کے پھول تِری راہ میں بچھا دوں گا
ابھی تو زندگی حائل ہے تجھ سے مِلنے میں
میں آج رات یہ دیوار بھی گرا دوں گا
اگر کسی نے مجھے ایک رات روک لیا
تو اس کا نام و پتہ بھی تجھے بتا دوں گا

فرقت میں وصلت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں

فُرقت میں وصلت برپا ہے، اللہ ہُو کے باڑے میں
آشوبِ وحدت برپا ہے، اللہ ہُو کے باڑے میں
روحِ کُل سے سب رُوحوں پر وصل کی حسرت طاری ہے
اِک سِرِ حکمت برپا ہے، اللہ ہُو کے باڑے میں
بے احوالی کی حالت ہے شاید، یا شاید کہ نہیں
پُراحوالیت برپا ہے، اللہ ہُو کے باڑے میں

نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی

نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی
گماں گماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی
عجب طرح رُخِ آئندگی کا رنگ اُڑھا
دیارِ ذات میں از خود گزشتگی ہی رہی
حریم شوق کا عالم بتائیں کیا تم کو
حریمِ شوق میں بس شوق کی کمی ہی رہی

جو عشق میں نے کفر کی پہچان کر دیا

جو عشق میں نے کفر کی پہچان کر دیا
کافر نے اس کو بھی مِرا ایمان کر دیا
حیرت نہیں ہوئی جو کسی عکس پر ہمیں
اس نے تو آئینے کا بھی حیران کر دیا
کچھ علم ہے کہ تم نے تو گیسو بکھیر کر
شیرازۂ جہاں کو پریشان کر دیا

اک لو تھی مرے خون میں تحلیل تو یہ تھی

اک لَو تھی مِرے خون میں تحلیل تو یہ تھی
اک برق سی رَو تھی میری قندیل تو یہ تھی
تیرے رُخِ خاموش سے میری رگِ جاں تک
جو کام کیا آنکھ نے ترسیل تو یہ تھی
بننا تھا تو بنتا نہ فرشتہ نہ خدا میں
انسان ہی بنتا، مِری تکمیل تو یہ تھی

کریں ہجرت تو خاک شہر بھی جزدان میں رکھ لیں

کریں ہجرت تو خاکِ شہر بھی جزدان میں رکھ لیں
چلیں گھر سے تو گھر کی یاد بھی سامان میں رکھ لیں
ہمارا کیا کہ گل کو نوچ کر تکریم بھی دے دیں
صحیفے میں سجا دیں یا کسی گلدان میں رکھ لیں
زیانِ دل ہی اس بازار میں سُودِ محبت ہے
یہاں ہے فائدہ خود کو اگر نقصان میں رکھ لیں

Tuesday 9 December 2014

میں جو تنہا رہ طلب میں چلا

میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا
ایک سایہ مِرے عقب میں چلا
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
جب گھنے جنگلوں کی صف آئی
ایک تارہ مِرے عقب میں چلا

يہ کیسا گيت ہے اے نے نواز عالم ہو

يہ کیسا گيت ہے اے نَے نوازِ عالم ہُو
کہ نَے سے راگ کے بدلے ٹپک رہا ہے لہُو
بہارِ صبح کے نغمہ گروں کو کيا معلوم
گزر گيا گُل و غنچہ پہ کيا عذابِ نمُو
اگر نقاب الٹ دے تو کيا قيامت ہو
وہ جانِ گُل کہ کبھی رنگ ہے کبھی خُوشبُو
مئے نشاط انڈيلی تھی ميں نے ساغر ميں

زلفوں میں اڑانیں بھونروں کی چہرے پر نور کا تڑکا ہے

زلفوں میں اڑانیں بھونروں کی، چہرے پر نور کا تڑکا ہے
کس شان کی ظلمت چھائی ہے، کس قہر کا شعلہ بھڑکا ہے
جب برق گِری تھی آنکھوں پر، اب قلب و جگر کی خیر نہیں
ہاتھوں میں سنہرا تیر لئے پھر تاک میں اندھا لڑکا ہے
میں ساتھ تمہارا دوں لیکن، اے ہمسفرو، اے راہزنو
تم چھوڑ نہ جاؤ رَستے میں اس بات کا مجھ کو دھڑکا ہے

رقص بسمل ہی نہ تھا نغمہ زنجیر بھی تھا

رقصِ بِسمل ہی نہ تھا نغمۂ زنجیر بھی تھا
مرگِ انبوہ میں اِک جشنِ ہمہ گیر بھی تھا
یوں ہی ٹوٹا نہیں بے رحم چٹانوں کا غرور
دستِ فرہاد میں ایک تیشۂ تدبیر بھی تھا
تُو نہیں ہے تو کوئی شمع نہیں ہے روشن
اب کُھلا، حُسن تِرا خالقِ تنویر بھی تھا

پہلے تو اپنی ذات سے منہا کیا مجھے

پہلے تو اپنی ذات سے منہا کِیا مجھے
پھر اس نے سارے شہر میں تنہا کِیا مجھے
حیرت نے میری مجھ کو کیا آئینہ مثال
اور آئینہ بھی ٹوٹنے والا کِیا مجھے
ہاتھوں کے ساتھ ہی میری مٹی ہوئی خراب
کُوزہ گری کے شوق نے رُسوا کِیا مجھے

بہتے ہوئے دریا کی روانی کو سمجھتا

بہتے ہوئے دریا کی روانی کو سمجھتا
لگتی جو تجھے پیاس تو پانی کو سمجھتا
کرنا تھا تجھے عشق تو پھر عشق سے پہلے
بہتر تھا محبت کے معانی کو سمجھتا
دیتا نہ کبھی ٹوٹنے پندارِ محبت
اے کاش تُو خود میری کہانی کو سمجھتا

یہ جو گرتی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں

یہ جو گِرتی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں
خلق کہتی ہے اسی گھر کے نکالے ہوئے ہیں
شہرِ جاں بخش ہمیں تُو تو حقارت سے نہ دیکھ
جیسے بھی ہیں تِری آغوش کے پالے ہوئے ہیں
کوچہ گردی کی ہوس ہے، نہ تمنا، نہ دماغ
پھر یہ کیا ہے کہ جو اب پاؤں میں چھالے ہوئے ہیں

ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
آنسو بھی تو ماؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
رستہ دیکھنے والی آنکھوں کے انہونے خواب
پیاس میں بھی دریاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے لیکن
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

کوئی مژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے

کوئی مُژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے
روز اک تازہ خبر، خلقِ خدا چاہتی ہے
موجِ خوں سر سے گزرنی تھی سو وہ بھی گزری
اور کيا کوچۂ قاتل کی ہوا چاہتی ہے
شہرِ بے مہر میں لب بستہ غلاموں کی قطار
نئے آئینِ اسیری کی بِنا چاہتی ہے

حریم لفظ میں کس درجہ بے ادب نکلا

حریمِ لفظ میں کس درجہ بے ادب نکلا
جسے نجیب سمجھتے تھے، کم نسب نکلا
سپاہِ شام کے نیزے پہ آفتاب کا سر
کس اہتمام سے پروردگارِ شب نکلا
ہماری گرمئ گفتار بھی رہی بے سُود
کسی کی چپ کا بھی مطلب عجب عجب نکلا

تیرے سود و زیاں کےٹھیلوں سے

تیرے سود و زیاں کےٹھیلوں سے
ہم کو کیا کام ان رکھیلوں سے
عشق میں جیت ہر اناڑی کی
عقل ڈرتی ہے ایسے کھیلوں سے
سوکھ کر ہو گیا ہوں کانٹا سا
تیری یادوں کی زرد بیلوں سے

کچھ ایسے تیرا تصور ہے دل کی بستی میں

کچھ ایسے تیرا تصور ہے دل کی بستی میں
رہی نہ تیری جگہ بھی ہماری ہستی میں
چمن کے شوق میں محوِ سفر ہوں شعلوں پر
کھلیں گے پھول اسی آبلہ پرستی میں
یہ کفر و شرک ہے ایسا خلل دماغوں کا
خرد کو دفن کرے ظلمتوں کی پستی میں

لفظوں کی یہ چترنگ غزل گوئی نہیں ہے

لفظوں کی یہ چترنگ، غزل گوئی نہیں ہے
اک غم کا فسانہ ہے، سخن شوئی نہیں ہے
معکوس ہزاروں ہیں سرِ آئینۂ ذات
حیراں ہوں پسِ آئینہ تو کوئی نہیں ہے
جب سے چلا ہے سلسلۂ آمد و آورد
حیرت سے مِری آنکھ کبھی سوئی نہیں ہے

یہ رعایتاں کسی کام کی نہیں چارہ گر

یہ رعایتاں کسی کام کی نہیں چارہ گر
یہ سخاوتاں کسی کام کی نہیں چارہ گر
تیری مصلحت میرے حوصلے کرے پست تر
یہ شرافتاں کسی کام کی نہیں چارہ گر
تیرے دل میں ایک صنم کدہ بھی تو ہے کہیں
یہ عبادتاں کسی کام کی نہیں چارہ گر

Monday 8 December 2014

کوئی سننے والا ہے کہ نہیں

پھر مت کہنا کہ بتایا نہیں، کوئی سننے والا ہے کہ نہیں
جاتا ہوں ميں کوئے ملامت کو، کوئی روکنے والا ہے کہ نہیں
مِرے باہر آئینہ خانے میں مِرے سارے عکس سلامت ہیں
مِرے اندر کیا کچھ ٹوٹ گیا، کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں
اسی رسم و رواج کے ریلے میں اسی کارِ جہاں کے میلے میں
کھویا ہوا ہے اک شہزادہ، کوئی ڈھونڈنے والا ہے کہ نہیں

رات کی جلتی تنہائی میں

رات کی جلتی تنہائی میں
اندھیاروں کے جال بُنے تھے
دیواروں پہ تاریکی کی گرد جمی تھی
خوشبو کا احساس ہوا، میں ٹوٹ رہا تھا
دروازے بانہیں پھیلائے اونگھ رہے تھے
دور سمندر پار ہوائیں بادلوں سے باتیں کرتی تھیں

اتنا نہ یاد کر اسے تھکتی ہے یاد بھی

اتنا نہ یاد کر اسے، تھکتی ہے یاد بھی
اے دل! ذرا سنبھل کہ بہکتی ہے یاد بھی
دْوری تو اور پھول کھلاتی ہے قرب کے
ویرانے میں تو اور مہکتی ہے یاد بھی
تیرے ہی پاس ہو گا مرا گمشدہ سکوں
تیرے ہی اردگرد بھٹکتی ہے یاد بھی

جیسے کہ رات بیت گئی خواب کے بغیر

جیسے کہ رات بِیت گئی خواب کے بغیر
میری یہ پہلی عید تھی، احباب کے بغیر
یوں بے دلی کے ہاتھ سے خالی پڑا ہے دل
جیسے کوئی مکان ہو اسباب کے بغیر
اک آدھ دوست دشمنوں جیسا بھی چاہیئے
دریا سراب لگتا ہے گرداب کے بغیر

بے رخی کا اوروں کی ہم حساب کیا کرتے

بے رخی کا اوروں کی ہم حساب کیا کرتے
اپنے آپ سے برتے اجتناب کیا کرتے
مسئلہ تو اتنا تھا عمر بھر کی دشواری
زندگی تھی اور اس کا سدِ باب کیا کرتے
جب محاسبہ اپنے شوق کا نہ کر پائے
پھر کسی کی آنکھوں کا احتساب کیا کرتے

کس رخ سے خوں گرا تھا مرے تشنہ لب ترا

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

کس رخ سے خوں گِرا تھا مِرے تشنہ لب تِرا
صحرا میں پڑ گیا تھا بھنور کربلا کے بعد
خیموں کی آگ آنکھ میں بھرتی ہے یوں دھواں
پڑتی ہے کربلا پہ نظر کربلا کے بعد
صبحِ وطن تھی شامِ غریباں کے اس طرف
باندھا گیا تھا رختِ سفر کربلا کے بعد

کوئی تھا چاند یا پھر چاندنی بردار دیکھا ہے

کوئی تھا چاند، یا پھر چاندنی بردار دیکھا ہے
نظر کو سامنے جس کے بہت لاچار دیکھا ہے
کبھی جو سیر کی ، اپنے ہی اندر ڈوب کر میں نے
تھکن سے چور اک سایہ پسِ دیوار دیکھا ہے
مسلسل جھوجھتا رہتا ہوں میں امواجِ دریا سے
ہمیشہ خود کو اِس جانب اسے اُس پار دیکھا ہے

نرغۂ غیر میں تلوار اٹھا لی اس نے

نرغۂ غیر میں تلوار اٹھا لی اس نے
میرا سر مانگ لیا بن کے سوالی اس نے
آخرش ترکِ تعلق کا بھرم رکھنے کو
ایک دیوار پسِ دار بنا لی اس نے
عازمِ راہِ محبت کی تواضع کرنے
ساغرِ جور کی پندار اٹھا لی اس نے

وقت کے پاس کہاں سارے حوالے ہوں گے

وقت کے پاس کہاں سارے حوالے ہوں گے
زیبِ قرطاس فقط یاس کے ہالے ہوں گے
کھوجتا کیوں ہے اندھیروں میں تفاہم کے دیے
آ، چراغوں میں لہو ڈال، اجالے ہوں گے
دشت میں جا کے ذرا دیکھ تو آئے کوئی
ذرے ذرے نے مِرے اشک سنبھالے ہوں گے

میرے ہونے سے نہ ہونے کی خبر آتی ہے

میرے ہونے سے نہ ہونے کی خبر آتی ہے
ہر نوا لوٹ کے با دیدۂ تر آتی ہے
شعلگی، دستِ کرم اب کے گلوں کا ٹھہری
ہر کلی قصۂ بے داد نظر آتی ہے
خاک میں خاک یہاں رختِ سفر باندھوں گا
ریگِ صحرا ہے اڑی، اور اِدھر آتی ہے

بے چینی کے لمحے سانسیں پتھر کی

بے چینی کے لمحے، سانسیں پتھر کی
صدیوں جیسے دن ہیں، راتیں پتھر کی
پتھرائی سی آنکھیں، چہرے پتھر کے
ہم نے دیکھیں کتنی شکلیں پتھر کی
گورے ہوں یا کالے، سر پر برسے ہیں
پرکھی ہم نے ساری ذاتیں پتھر کی

پرانے رنگ میں اشک غم تازہ ملاتا ہوں

پرانے رنگ میں اشکِ غمِ تازہ ملاتا ہوں
در و دیوار پر کچھ عکسِ نادیدہ سجاتا ہوں
مِرے اس شوق سے دریا، کنارے، سب شناسا ہیں
جہاں طوفاں ہو موجوں کا، وہاں لنگر اٹھاتا ہوں
مجھے صحرا نوردی راس آتی جا رہی ہے اب
خراباتِ چمن میں لالہ و سوسن اگاتا ہوں

ہر گھر ميں اک ايسا کونا ہوتا ہے

ہر گھر ميں اک ايسا کونا ہوتا ہے
جہاں کسی نے چھپ کے رونا ہوتا ہے
ہوتی ہے چھوٹی سی چيز رقابت بھی
دو بچوں ميں ايک کھلونا ہوتا ہے
اجرت کے لالچ ميں ہم مزدوروں کو
 چوروں کا اسباب بھی ڈھونا ہوتا ہے

داستانیں وہاں نہیں ہوتیں

داستانیں وہاں نہیں ہوتیں
جہاں آبادیاں نہیں ہوتیں
قید و قدغن نہ ہو تو پھر بھی ہمیں
اتنی آزادیاں نہیں ہوتیں
صبح کی نیند سب کو پیاری ہے
اور چڑیاں کہاں نہیں ہوتیں

کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے

کوئی تہمت ہو، مِرے نام چلی آتی ہے
جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے
تِری یاد آتی ہے اب کوئی کہانی بن کر
یا کسی نظم کے سانچے میں ڈھلی آتی ہے
اب بھی پہلے کی طرح پیشروِ رنگ و صدا
ایک منہ بند سی بے رنگ کلی آتی ہے

آزار مرے دل کا دل آزار نہ ہو جائے

آزار مِرے دل کا دل آزار نہ ہو جائے
جو کرب نہاں ہے وہ نمودار نہ ہو جائے
آواز بھی دیتی ہے کہ اٹھ جاگ مِرے لعل
ڈرتی بھی ہے کہ بچہ کہیں بیدار نہ ہو جائے
جب تک میں پہنچتا ہوں کڑی دھوپ میں چل کر
دیوار کا سایہ، پسِ دیوار نہ ہو جائے

دیے جلا کے ندی میں بہایا کرتا تھا

دِیے جلا کے ندی میں بہایا کرتا تھا
فلک کو اپنے ستارے دکھایا کرتا تھا
چہار سمت محبت کے بھیجتا تھا رسول
میں گھر کی چھت پہ کبوتر اڑایا کرتا تھا
مِرے مزاج پہ غربت کی کوئی چھاپ نہ تھی
میں ریت کے بھی محل ہی بنایا کرتا تھا

Saturday 6 December 2014

شام تھی اور برگ و گل شل تھے مگر صبا بھی تھی

شام تھی اور برگ و گل شل تھے مگر صبا بھی تھی
ایک عجیب سکوت تھا، ایک عجب صدا بھی تھی
ایک ملال کا سا حال محو تھا اپنے حال میں
رقص و نوا تھے بے طرف محفلِ شب بپا بھی تھی
سامعۂ صدائے جاں بے سروکار تھا کہ تھا
ایک گماں کی داستاں بر لبِ نیم وا بھی تھی

کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو

کسی سے کوئی خفا بھی نہیں رہا اب تو
گِلہ کرو کہ گِلہ بھی نہیں رہا اب تو
چنے ہوئے ہیں لبوں پر تیرے ہزار جواب
شکایتوں کا مزا بھی نہیں رہا اب تو
یقین کر جو تیری آرزو میں تھا پہلے
وہ لطف تیرے سوا بھی نہیں رہا اب تو

لمحے کو بے وفا سمجھ لیجیے

لمحے کو بے وفا سمجھ لیجیے
جاوِدانی ادا سمجھ لیجیے
میری خاموشئ مسلسل کو
اک مسلسل گِلہ سمجھ لیجیے
آپ سے میں نے جو کبھی نہ کہا
اس کو میرا کہا سمجھ لیجیے

وہ جو اپنے مکان چھوڑ گئے

وہ جو اپنے مکان چھوڑ گئے
کیسے دنیا جہان چھوڑ گئے
اے زمینِ وصال لوگ ترے
ہجر کا آسمان چھوڑ گئے
تیرے کوچے کے رخصتی جاناں
ساری دنیا کا دھیان چھوڑ گئے

نامہ گیا کوئی نہ کوئی نامہ بر گیا

نامہ گیا کوئی، نہ کوئی نامہ بر گیا
تیری خبر نہ آئی، زمانہ گزر گیا
جنت بھی خوب بھر گئی، دوزخ بھی بھر گیا
جوشِ جنوں بتائے مجھے، میں کدھر گیا
ہنستا ہوں یوں کہ ہجر کی راتیں گزر گئیں
روتا ہوں یوں کہ لطفِ دعائے سحر گیا

شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں

شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں
میں پھول بن کے آؤں گا اب کی بہار میں
خلوت خیالِ یار سے ہے انتظار میں
آئیں فرشتے لے کے اجازت مزار میں
ہم کو تو جاگنا ہے تِرے انتظار میں
آئی ہو جس کو نیند وہ سوئے مزار میں

کیا قہر ہے اجل میرے سر پر کھڑی ہے

کیا قہر ہے اجل میرے سر پر کھڑی ہے
غیروں کی تم کو فکرِ عیادت پڑی ہے
اے شورِ حشر! شہرِ خموشاں کی لے خبر
اب کب تلک اجاڑ پہ بستی پڑی ہے
جدت ہو فکر میں تو توارد کبھی نہ ہو
مضمون کیوں لڑیں جو طبیعت لڑی ہے

اکبر الہ آبادی

مصیبت عشق کی تنہا مجھی پر کیا گزرتی ہے

مصیبت عشق کی تنہا مجھی پر کیا گزرتی ہے
تمہارے حسنِ عالمگیر پر اک خلق مرتی ہے
خبر ملتی نہیں کچھ مجھ کو یارانِ گزشتہ کی
خدا جانے کہاں ہیں، کس طرح ہیں، کیا گزرتی ہے
مِری آنکھوں میں تو اس کا گزر بھی ہو نہیں سکتا
یہ آنکھیں آپ کی ہیں نیند جس میں چین کرتی ہے

کہیں دل ہوں کہیں باعث بیتابی دل ہوں

کہیں دل ہوں، کہیں باعثِ بیتابئ دل ہوں
کہیں اندازِ بِسمل کہیں میں نازِ قاتل ہوں
کہیں تمکین خوبی ہوں، کہیں ہنگامۂ الفت
کہیں رنگِ رخِ گل ہوں، کہیں شورِ عنادل ہوں
کہیں جلوہ ہوں صورت کا، کہیں ہوں شاہدِ معنی
کہیں ہو محملِ لیلیٰ، کہیں لیلائے محمل ہوں

ہے عشق میں ہر لحظہ ترقی میرے دل کی

ہے عشق میں ہر لحظہ ترقی میرے دل کی
ہر داغ بڑھاتا ہے تجلی مِرے دل کی
کیا اور سے ممکن ہو تسلی مِرے دل کی
جب آپ ہی نے کچھ نہ خبر لی ہو مِرے دل کی
رونا ہے جو فرقت میں یہی دیدۂ تر کا
طوفان میں آ جائے گی کشتی میرے دل کی

جو لذت آشنائے درد و الفت ہے میں وہ دل ہوں

جو لذت آشنائے درد و الفت ہے میں وہ دل ہوں
اجل جس کو قیامت تک نہ آئے گی وہ بسمل ہوں
توقع رہتی ہے ہر دم کہ دم لینے کی مہلت ہے
معاذ اللہ! اپنی موت سے کس درجہ غافل ہوں
دیکھایا بے خودی نے آئینہ جب میری ہستی کو
ہوا یہ صاف روشن وہ صنم حق ہے میں باطل ہوں

ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو

ہوں میں پروانہ، مگر شمع تو ہو، رات تو ہو
جان دینے کو ہوں موجود کوئی بات تو ہو
دل بھی حاضر، سرِ تسلِیم بھی خم کو موجود
کوئی مرکز ہو، کوئی قبلۂ حاجات تو ہو
دل تو بے چین ہے اظہارِ ارادت کے لیے
کسی جانب سے کچھ اظہارِ کرامات تو ہو

آتی ہے شرم ملک کے اس انتطام پر

آتی ہے شرم ملک کے اس انتطام پر
حاکم کی بھی نظر ہے تو کارِ حرام پر
اب وقت آ گیا ہے کہ بیدار ہوں عوام
اب بات ختم ہو گی تو بس انتقام پر
کس کام آئے گا ترے کعبے کا یہ طواف
بیچا ضمیر تم نے حکومت کے نام پر

چھاؤں کی ہے طلب تو مثال شجر رہو

چھاؤں کی ہے طلب تو مثالِ شجر رہو
رہنے کا ڈھنگ یہ کہ رہو نہ، مگر رہو
تم بھی کھلی ہواؤں میں پرواز سیکھ لو
کس نے کہا ہے تم سے کہ بے بال و پر رہو
ترکِ تعلقات سے بہتر ہے یوں کریں
میں اپنے گھر میں رہتا ہوں تم اپنے گھر رہو

محبت میں جو رنجش ہو رہی ہے

محبت میں جو رنجش ہو رہی ہے
عجب مجھ پہ نوازش ہو رہی ہے
مِرے باہر ہوا کا شور ہے، اور
مِرے اندر بھی بارش ہو رہی ہے
میں کس کے آسماں میں اُڑ رہا ہوں
مجھے یہ کس کی خواہش ہو رہی ہے

آنسوؤں میں لہو نتھارا ہے

آنسوؤں میں لہو نتھارا ہے
کیسے خطرے کا یہ اشارہ ہے
کس قدر قہر کی ہے تنہائی
میں نے اپنے کو خود پکارا ہے
عہدِ نو میں سخن طرازوں نے
خود لباسِ سخن اتارا ہے

مجھ سے اس نے بچھڑ کے صفدر کیسے رات گزاری

مجھ سے اس نے بچھڑ کے صفدر کیسے رات گزاری
اس کی آنکھ کے کاجل میں تفصیل لکھی ہے ساری
عشق میں زندہ رہنے کو کہتے ہیں ”جرم“ سیانے
سولی پر مصلوب ہونے کی اب ہے میری باری
جن سانسوں کو تم نے سمجھا جیون کی تمثیل
تجھ کو کیا معلوم، نہیں ہے ہر اک سانس ادھاری

قرب کا زہر مری روح میں زندہ ہے ابھی

قرب کا زہر مِری روح میں زندہ ہے ابھی
چند دن اور مجھے تم نے تو سمجھا ہے ابھی
ان چمکتے ہوئے رستوں پہ بھی چل لیں گے مگر
راستہ چلتے ہوئے لوگوں کو دیکھا ہے ابھی
آئینہ ٹوٹ کے بکھرا تو خدا رونے لگا
کون روئے گا یہ انسان جو بکھرا ہے ابھی

بن کے خوشبو جو بکھرو تو پھر بات ہے

بن کے خوشبو جو بکھرو تو پھر بات ہے
تم مری بات سمجھو تو پھر بات ہے
ساحلوں پر کھڑے مسکرانا بجا
گر سمندر سے گزرو تو پھر بات ہے
اس طرح چھپ کے آواز ہم کو نہ دو
سامنے آ کے بولو تو  پھر بات ہے

بھیگتا رہا شب بھر چاہتوں کی بارش میں

بھیگتا رہا شب بھر، چاہتوں کی بارش میں
مات کھائی ہے ہم نے جیتنے کی خواہش میں
جس کے بعد ہر رخ سے ہر قدم اندھیرا ہو
کتنی دیر لگتی ہے ایسی ایک لرزش میں
یہ یقین ہے میرا، ڈوب کر میں ابھروں گا
جتنا چاہو ڈالو اب جیسی آزمائش میں

تمہیں خیال لکھوں لفظ یا صدا لکھوں

تمہیں خیال لکھوں، لفظ یا صدا لکھوں
یا شہرِ عشق کا نایافت راستہ لکھوں
عجب ہے اس کی تمنا کہ اس پہ شعر کہوں
جو خود ہو شعر، بھلا اس پہ شعر کیا لکھوں
محبتوں کی حدیں ماورأ خیالوں سے
محبتوں کو خدائی کا سلسلہ لکھوں

Thursday 4 December 2014

یہ شام کتنی حسین ہے مگر اداس ہے دل

یہ شام کتنی حسین ہے، مگر اداس ہے دل
کوئی سبب بھی نہیں، مگر اداس ہے دل
بہت دنوں پہ میں اپنے گاؤں آیا ہوں
سنا ہے وہ بھی یہیں ہے، مگر اداس ہے دل
پھر اس مکان کی کھڑکی میں چاند اگتا ہے
پھر اس میں کوئی مکیں ہے، مگر اداس ہے دل

دل کا معاملہ جو سپرد نظر ہوا

دل کا معاملہ جو سپردِ نظر ہُوا
دشوار سے یہ مرحلہ دشوار تر ہوا
ابھرا، ہر اک خیال کی تہ سے تِرا خیال
دھوکا تِری صدا کا، ہر آواز پر ہوا
راہوں میں ایک ساتھ یہ کیوں جل اٹھے چراغ
شاید تِرا خیال مِرا ہم سفر ہوا

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غبار ہوں
نہ دوائے دردِ جگر ہوں میں نہ کسی کی میٹھی نظر ہوں میں
نہ اِدھر ہوں میں نہ اُدھر ہوں میں نہ شکیب ہوں نہ قرار ہوں
مِرا رنگ روپ بگڑ گیا، مِرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا، میں اسی کی فصل بہار ہوں

یہ شکل ہو ہی نہیں سکتی شادمانی کی

یہ شکل ہو ہی نہیں سکتی شادمانی کی
اٹھا کے حلف بھی، تم غلط بیانی کی
یہ کام جب نہ ہوا، لڑکھڑاتے لفظوں سے
تو دل کے حال کی اشکوں نے ترجمانی کی
یہیں پہ رک جا سمندر! میں تیرا ساحل ہوں
یہیں تلک ہیں حدیں تیری بے کرانی کی

رفتہ رفتہ منظر شب تاب بھی آ جائیں گے

رفتہ رفتہ، منظرِ شب تاب بھی آ جائیں گے
نیند تو آ جائے پہلے ،خواب بھی آ جائیں گے
کیا پتا تھا، خون کے آنسو رلا دیں گے مجھے
اس کہانی میں کچھ ایسے باب بھی آ جائیں گے
خشک آنکھوں نے تو شاید یہ کبھی سوچا نہ تھا
ایک دن صحراؤں میں سیلاب بھی آ جائیں گے

شام تک پھر رنگ خوابوں کا بکھر جائے گا کیا

شام تک پھر رنگ خوابوں کا بکھر جائے گا کیا
رائیگاں ہی، آج کا دن بھی گزر جائے گا کیا
ڈھونڈنا ہے گھپ اندھیرے میں مجھے اک شخص کو
پوچھنا، سورج ذرا مجھ میں اتر جائے گا کیا
مانتا ہوں، گھٹ رہا ہے دم تیرا اس حبس میں
گر یہی جینے کی صورت ہے تو مر جائے گا کیا

روز اک منظر شب طلب کرتی ہے

روز اک منظر شب طلب کرتی ہے
میری بے خوابی کوئی خواب طلب کرتی ہے
کچھ تو مجبورئ حالات بھی ہوتی ہو گی
ورنہ، کشتی کبھی گرداب طلب کرتی ہے
پہلے تو توڑ دیا، میری انا نے مجھ کو
اور اب مجھ سے وہی تاب طلب کرتی ہے

دیکھنے کا جسے کل رات میں ڈھنگ اور ہی تھا

دیکھنے کا جسے کل رات میں ڈھنگ اور ہی تھا
صبح جب آئی، تو اس چشم کا رنگ اور ہی تھا
شیشۂ جاں کو مِرے اتنی نِدامت سے نہ دیکھ
جس سے ٹوٹا ہے یہ آئینہ، وہ سنگ اور ہی تھا
خلق کی بھیجی ہوئی ساری ملامت، اک سمت
اس کے لہجے میں چھپا تیر و تفنگ اور ہی تھا

رستہ ہی نیا ہے نہ میں انجان بہت ہوں

رستہ ہی نیا ہے، نہ میں انجان بہت ہوں
پھر کُوئے ملامت میں ہوں، نادان بہت ہوں
اک عمر جسے خواب کی مانند ہی دیکھا
چھونے کو ملا ہے، تو پریشان بہت ہوں
مجھ میں کبھی آہٹ کی طرح سے کوئی آئے
اک بند گلی کی طرح، سنسان بہت ہوں

ان کی کسی ادا پہ جفا کا گماں نہیں

ان کی کسی ادا پہ جفا کا گماں نہیں
شوخی ہے جو بسلسلۂ امتحاں نہیں
دیکھا نہیں وہ جلوہ جو دیکھا ہوا سا ہے
اس طرح وہ عیاں ہیں کہ گویا عیاں نہیں
نامہربانیوں کا گِلہ تم سے کیا کریں
ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں

عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی

عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
درد دنیا میں جب آیا، تو دوا بھی آئی
دل کی ہستی سے، کِیا عشق نے آگاہ مجھ کو
دل جب آیا، تو دھڑکنے کی صدا بھی آئی
صدقے اتریں گے، اسیرانِ قفس چُھوٹے ہیں
بجلیاں لے کے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی

بڑی مشکل سے کچھ تسکین کے پہلو نکلتے ہیں

بڑی مشکل سے کچھ تسکین کے پہلو نکلتے ہیں
جگر پھٹتا ہے، جب آنکھوں سے دو آنسو نکلتے ہے
ہماری بے کسی یارانِ گلشن! دیکھتے رہنا
کہ ہم کنجِ قفس سے بے پر و بازو نکلتے ہیں
کبھی وہ دن بھی تھے، لب پر ہمارے خندۂ گُل تھا
مگر اب تو ہنسی کے نام سے آنسو نکلتے ہیں

ہمیں تو یوں بھی نہ جلوے ترے نظر آئے

ہمیں تو یوں بھی نہ جلوے تِرے نظر آئے
نہ تھا حجاب، تو آنکھوں میں اشک بھرآئے
ذرا سی دیر میں دنیا کی سیر کر آئے
کہ لے کے تیری خبر تیرے بے خبر آئے
اسیر ہونے کے آثار پھر نظر آئے
قفس سے چھوٹ کر آئے تو بال و پر آئے

Wednesday 3 December 2014

وہ نگہ جب مجھے پکارتی تھی

وہ نگہ جب مجھے پکارتی تھی
دل کی حیرانیاں ابھارتی تھی
اپنی نادیدہ انگلیوں کے ساتھ
میرے بالوں کو وہ سنوارتی تھی
روز میں اس کو جیت جاتا تھا
اور وہ روز خود کو ہارتی تھی

رنگ اور نور کو آپس میں ملا دیتا تھا

رنگ اور نور کو آپس میں ملا دیتا تھا
میں کسی وقت میں خوشبو کا پتہ دیتا تھا
جب کوئی میری تگ و تاز نہیں جانتا تھا
اپنی روداد میں ٹیلوں کو سنا دیتا تھا
اک تیقن میں گزرتے تھے شب و روز مِرے
اور کوئی کارِ جنوں تھا جو جِلا دیتا تھا

گل شکست لیے کب تلک پھروں گا میں

گلِ شکست لیے کب تلک پھروں گا میں
کبھی تو دستِ طلبگار سے ملوں گا میں
مگر وه خواب جو آئنده تک نہیں جاتا
رہے رہے نہ رہے دیکھتا رہوں گا میں
ابھی وه سلطنتِ ہجر کے نواح میں ہے
وه ایک دن جسے جی بھر کے جی سکوں گا میں

دل اسی سفاک فطرت پر ہے راضی بے بہا

دل اسی سفاک فطرت پر ہے راضی بے بہا
جس نے کی ہر ہر قدم پر زخم سازی بے بہا
ہے مزاج اپنا مزاجِ یار سے باندھا ہوا
اور مزاجِ یار میں ہے بے نیازی بے بہا
آج بھی سفاکیت کا بے بہا رجحان ہے
آج بھی مل جائیں گے دنیا میں نازی بے بہا

دشنام تو ملتے ہیں دلاسا نہیں ملتا

دشنام تو ملتے ہیں، دلاسا نہیں ملتا
سر جس پہ ٹکا لیں کوئی کاندھا نہیں ملتا
بھیڑ اتنی ہے بازار میں رستا نہیں ملتا
ڈھونڈھو تو کوئی کام کا بندہ نہیں ملتا
تم حلقۂ اغیار سے باہر نہیں آتے
اور میں بھی کسی غیر سے بے جا نہیں ملتا

Tuesday 2 December 2014

نہ ملا کبھی کسی سے اسے دیوتا سمجھ کر

نہ ملا کبھی کسی سے اسے دیوتا سمجھ کر
بھلا کیسے پوجتا پھر میں اسے خدا سمجھ کر
میں یہ چاہتا ہوں مجھ سے وہ ملے تو دوست بن کے
نہ بڑا سمجھ کے خود کو، نہ مجھے بڑا سمجھ کر
کوئی ان کو یہ بتا دے مِرے منہ میں بھی زباں ہے
وہ ستم کریں گے کب تک مجھے بے نوا سمجھ کر

کرتا ہے بیکار کی باتیں کام کی کوئی بات نہیں

کرتا ہے بے کار کی باتیں، کام  کی کوئی بات نہیں
غیروں جیسی بات ہے تیری، اپنوں جیسی بات نہیں
جام سبھی کے ہاتھوں میں ہے،  ہاتھ ہمارے خالی ہیں
ناانصافی ہونے دینا ساقی! اچھی بات نہیں
محفل میں جس کو بھی دیکھو روٹھا روٹھا لگتا ہے
کڑواہٹ ہے آوازوں میں، کوئی میٹھی بات نہیں

الطاف کی بارش ہے گمراہ شریروں پر

الطاف کی بارش ہے گمراہ شریروں پر
طوفاں ہیں مصائب کے نیکی کے سفیروں پر
جب زیست میں آئے گا، دیکھے گا تعجّب سے
بیٹھا ہوں تِری خاطر الفت کے ذخیروں پر
رہتا ہوں تخیّل میں سائے میں ستاروں کے
لکھی ہے مِری قسمت شبنم کی لکیروں پر

جہاں ہے دعویٰ ترقیوں کا وہیں تباہی مچی ہوئی ہے

جہاں ہے دعویٰ ترقیوں کا، وہیں تباہی مچی ہوئی ہے
جسے وہ کہتے ہیں فصلِ شیریں وہ فصل ساری گلی ہوئی ہے
نجوم و شمس و بروج و طارق، شہابِ ثاقب، قمر، کواکب
بحمدِ رب، سجدہ ریز ہیں سب کہ بزمِ عالم سجی ہوئی ہے
نہ دل میں فرحت نہ ہی مسرت، نہ کوئی حسرت نہ کوئی رغبت
گھٹن سی کیوں سانس میں نہ ہو گی، ہوا ہر اک سُو رکی ہوئی ہے