Saturday 6 December 2014

ہوں میں پروانہ مگر شمع تو ہو رات تو ہو

ہوں میں پروانہ، مگر شمع تو ہو، رات تو ہو
جان دینے کو ہوں موجود کوئی بات تو ہو
دل بھی حاضر، سرِ تسلِیم بھی خم کو موجود
کوئی مرکز ہو، کوئی قبلۂ حاجات تو ہو
دل تو بے چین ہے اظہارِ ارادت کے لیے
کسی جانب سے کچھ اظہارِ کرامات تو ہو
دلکُشا بادۂ ساقی کا کسے ذوق نہیں
باطن افروز کوئی پیرِ خرابات تو ہو
گفتنی ہے دلِ پُردرد کا قصہ, لیکن
کس سے کہیے کوئی مستفسرِ حالات تو ہو
داستانِ غمِ دل کون کہے، کون سنے
بزم میں موقعِ اظہارِ خیالات تو ہو
وعدے بھی یاد دلاتے ہیں، گِلے بھی ہیں بہت
وہ دکھائی بھی تو دیں، اُن سے ملاقات تو ہو
کوئی واعظ نہیں فطرت سے بلاغت میں سوا
مگر انسان میں کچھ فہمِ اشارات تو ہو 

اکبر الہ آبادی

No comments:

Post a Comment