خدا تو ایک حقیقت ہے، تُو ہے افسانہ
فلک ہے بزمِ محبت، زمین ویرانہ
عجیب غمزہ گری ہے پری وشوں کے یہاں
کہ جس سے آنکھ لڑانا، اسی سے شرمانا
نہ دردِ عشق، نہ ہجر و فراق کی راتیں
لبوں پہ میرے تجلی ہے، ہاتھ میں مینا
چلا رہا ہوں زمیں پر خدا کا مئے خانہ
میں داستاں ہوں کیا اور کیا ہے سرنامہ
نہیں ملے کا تجھے، کوئی مجھ سا دیوانہ
دھمال پاؤں میں بجتی ہے گھنگروؤں کی طرح
الست مست ہے دم دم، یہ رب کا مستانہ
یہ زندگی مری مسعودؔ، اک شہادت ہے
کہ دے چکا ہوں خدا کو میں سر کا نذرانہ
مسعود منور
No comments:
Post a Comment