زندگی بھر وفا ہمِیں سے ہوئی
سچ ہے یارو! خطا ہمِیں سے ہوئی
دل نے ہر داغ کو رکھا محفوظ
یہ زمیں خوشنما ہمِیں سے ہوئی
ہم سے پہلے زمینِ شہرِ وفا
کتنی مردم شناس ہے دنیا
منحرف بے حیا، ہمِیں سے ہوئی
کون اٹھاتا شبِ فراق کے ناز
یہ بلا آشنا ہمِیں سے ہوئی
بے غرض کون دل گنواتا ہے
تیری قیمت ادا ہمِیں سے ہوئی
ستمِ ناروا تجھی سے ہوا
تیرے حق میں دعا ہمِیں سے ہوئی
سعئ تجدیدِ دوستی ناصرؔ
آج کیا بارہا ہمِیں سے ہوئی
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment